تحقیق و تصنیف اور بحث و تحقیق سے متعلق جدید ٹولز اور سہولیات اللہ کی نعمت ہیں، جن کے حوالے سے کچھ باتیں بہت واضح طور پر معلوم ہونی چاہییں:
1۔ جدید ٹولز اور سہولیات کے درست استعمال پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے۔ جیسا کہ ایک وقت تھا چیزیں قلم سے لکھی جاتی تھیں، پھر ٹائپنگ مشین آگئی، پھر کمپیوٹر میں کمپوزنگ شروع ہوگئی، اب اس سے بھی آگے بڑھ کر صرف تصویر یا وائس سے کمپوزنگ کی سہولت آگئی ہے۔
2۔ کسی مصلحت اور ضرورت کے پیش نظر وقتی طور پر کسی ٹول کے استعمال پر پابندی لگائی جاسکتی ہے، جیسا کہ کچھ عرصہ کتابتِ حدیث پر پابندی رہی، تاکہ کتابوں پر کلی اعتماد سے حافظے کمزور نہ ہوجائیں۔
اسی طرح اگر خوش نویسی مقصود ہو، تو کسی طالبعلم کو کمپیوٹر ٹائپنگ سے روکا جاسکتا ہے، اسی طرح اگر کسی کی کمپوزنگ کی تربیت مقصود ہو، تو اسے مزید ایڈوانس ٹولز کے استعمال سے روکا جاسکتا ہے۔
3۔ کوئی بھی نئی سہولت یا جدید ٹول آنے سے انسان کی اہمیت و ضرورت کم نہیں ہوسکتی۔ حال ہی میں چیٹ جی بی ٹی جیسے اے آئی ٹولز آنے کے سبب کئی ایک لوگوں کی طرف سے یہ بات پیش کی گئی کہ اب سب کچھ کمپیوٹرز خود بخود کریں گے، انسان کی ضرورت ختم ہوجائے گی۔
حالانکہ حقیقت اس سے مختلف ہے، کوئی بھی نئی سہولت آنے پر لوگوں کی اہمیت ختم نہیں ہوتی، بلکہ لوگ آہستہ آہستہ خود کو اسی ٹول کے مطابق تیار کرلیتے ہیں، مثلا ایک وقت تھا کتابیں خوش نویسوں سے کتابت کروائی جاتی تھیں، جب ٹائپنگ مشینیں یا کمپیوٹر کمپوزنگ آئی، یہ خیال آتا ہو گا کہ اب سارا کچھ تو کمپیوٹر نے کر دینا ہے، اب لوگوں کی ضرورت کیا رہ گئی؟ تو مرور وقت کے ساتھ اس سوال کا جواب مل گیا کہ وہی لوگ جو پہلے خطاطی اور خوش نویسی سیکھتے تھے، انہوں نے ایک نئی مہارت، ایک نیا ٹول کمپوزنگ سیکھنا شروع کردیا، پہلے جتنے لوگ کتابت اور خوش نویسی کیا کرتے تھے، اب اسی تعداد میں لوگ کمپوزنگ وغیرہ کرتے ہیں۔

ہاں یہ ضرور ہے جو خود کو زمانے کے مطابق نہیں بدلتے، ان کے لیے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔

جب پہلی دفعہ ریکارڈنگ کی سہولت آئی ہوگی، ہوسکتا ہے کہ لوگوں کے ذہن میں آیا ہو کہ اب تو لوگ ریکارڈ کر ایک ہی چیز کو بار بار سن لیا کریں گے، لہذا علماء، خطباء، شعراء وغیرہ کو کوئی بلائے گا ہی نہیں.. لیکن کیا ایسے ہوا؟ پی ڈی ایف کتابوں کے حوالے سے ایک عرصے سے یہ مسئلہ درپیش ہے کہ جس کتاب کی پی ڈی ایف بن جاتی ہے، لوگ اسے خریدتے نہیں ہیں، اس مسئلے کے بھی ایک سو ایک حل ہیں.. لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود کو بدلنے کی بجائے، زمانے کی رفتار میں روڑے اٹکانے کو اپنی نجات سمجھتے ہیں..! حالانکہ پی ڈی ایف بنانے والے اور اس سے منع کرنے والے، دونوں مل جل کر جلدی اور دونوں میں سے کوئی ایک بھی چاہے تو اس کا بہترین حل نکالا جاسکتا ہے۔

ایک وقت تھا کیسٹس اور پھر سی ڈی سنٹرز کا جال بچھا ہوا تھا، آج وہی سارے لوگ یوٹیوب چینلز بنا کر اس سے زیادہ کمائی کر رہے ہیں۔تو سرچ انجنز اور چیٹ جی بی ٹی جیسے ٹولز بھی ہمارے لیے نئے جہاں اور نئے میدان کھولیں گے، اگر ہم ان کو سمجھ اور سیکھ لیں گے۔ یہ آج سے ہزار سال بعد بھی ممکن نہیں کہ ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر جائے کہ سارا کچھ مشینوں پر ہو جائے اور انسانوں کے کرنے کا کوئی کام نہ ہو۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ آج اگر سو لوگ مل کر کوئی ایک کام کر رہے ہیں، تو کل کو وہ کام تو ایک بندہ ہی کر رہا ہوگا، لیکن بقیہ 99 اسی جیسے مزید سو کام کر رہے ہوں گے۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ بظاہر ایک کام پر ایک بندہ ہی نظر آرہا ہوں، لیکن بقیہ 99 اس کے اس سیٹ اپ کو ترتیب و تشکیل دینے میں لگے ہوئے ہوں کہ ایک بندہ اس کو رن کرسکے۔
4۔ٹیکنالوجی اور ترقی کی رفتار اور اس کی افادیت و نقصان کو سمجھنا بہت ضروری ہے، جو نقصان کے پہلو ہیں، ان کا تدارک کیا جائے، اور جو افادیت کے پہلو ہیں، ان سے فوری طور پر فائدہ اٹھانے کی سبیل پیدا کی جائے۔
ہمارے ہاں یہ بہت بڑی مصیبت ہے کہ ہم جدید سہولیات کے درست استعمال اور اس کی اصل افادیت سے کماحقہ واقف نہیں ہوتے۔
آپ فرض کریں، اگر اللہ تعالی آپ کو ہیلی کاپٹر دے دے، اور آپ اسے لاہور تا کراچی بذریعہ فضا ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار میں اڑانے کی بجائے موٹر وے پر دو چار سو کی سپیڈ پر ڈال دیں…!! اس صورت حال میں آپ کار اور بس سے تو تیز ہی ہیں، لیکن جو ٹول اور سہولت آپ کے پاس ہے، اس کے لحاظ سے آپ اپنا وقت اور سرمایہ برباد کر رہے ہیں..!!
اس وقت بحث و تحقیق کے لیے جس قدر ٹولز معرض وجود میں آچکے ہیں، أور ہم اس سے جتنا فائدہ اٹھا پارہے ہیں، اس کی مثال اوپر ہیلی کاپٹر کو موٹر وے پر چلانے جیسی ہی ہے۔
ایک دوست بتار ہے تھے، کسی صاحب نے کمپیوٹر پر لمبا چوڑا آرٹیکل لکھا، وہ غلطی سے ان سے ڈیلیٹ ہوگیا، تو انہوں نے اسے دوبارہ لکھنا شروع کردیا، بعد میں کسی نے بتایا کہ کمپیوٹر میں جو چیز ڈیلیٹ ہو جائے، تو وہ ری سائیکل بن سے مل جاتی ہے، یا پھر اسے ری اسٹور کیا جاسکتا ہے…!!
5۔ ہمارے پاس جس قدر سہولیات ہیں، اس حساب سے ہماری تحقیق کی رفتار بالکل سست ہے، اور معیار بالکل خراب ہے۔
ایک عالم دین، جسے ہزاروں کتابوں کو ایک ایک کرکے کھولنا پڑتا تھا، پھر چیزوں کو کاپی پنسل سے نوٹ کرکے، بار بار لکھ کر مسودہ در مسودہ سے گزار کر کتاب تیار ہوتی تھی…جو اس کا تحقیقی معیار ہے.. آج ایک بیگ میں لاکھوں کتابیں لے کر پھرنے والے، اور ان سب کتابوں میں پانچ منٹ میں ریسرچ، پھر مطلوبہ مقام کو کاپی پیسٹ، پھر نہ بار بار مسودے لکھنے کا جھنجھٹ… اس سب کے باوجود ہمارا تحقیقی معیار اور رفتار اس روایتی عالم دین سے بہتر تو دور کی بات، اس جیسا بھی نہیں ہے…!!
فرق کدھر ہے؟ سہولیات ہمارے پاس زیادہ ہیں، محنت، شوق، لگن، ہمت اور جذبہ ان کے پاس زیادہ تھا۔
اگر ہم بھی ان سہولیات کو صحیح طریقے سے سمجھ کر، اسی محنت، شوق اور لگن سے کام کریں، تو تحقیقی کام جہاں پر رکا ہے، اسی کو چند گھنٹوں میں کاپی پیسٹ کرنے کی بجائے،اس میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتے ہیں…!
امام مزی جیسے اساطین نے تحفۃ الاشراف وغیرہ کتابیں جو لکھی ہیں، عصر حاضر کے نوجوان جدید ٹولز اور کمپیوٹر کو اگر ’’اسلامی ذہن’’ اور ’’انگریزی مہارت’’ کے ساتھ استعمال کریں، تو ایسی فہارس سالوں میں نہیں گھنٹوں میں تیار ہوسکتی ہیں…!
انگریز نے پوری دنیا کے انسانوں کا ڈیٹا اپنی فنگر ٹپس پر رکھا ہوا ہے، جبکہ ہمیں دو چار ہزار راویوں میں سے کسی کو تلاش کرنا پڑ جائے، تو ہمیں مصیبت پڑ جاتی ہے…!
اگر ہمارے اسلاف بھی اس قدر کند ذہن ہوتے، تو اسلامی علوم و فنون اس طرح محکم بنیادوں پر استوار نہ ہوتے کہ غیر مسلم بھی ان کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے اور بہ یک زبان کہا کہ علم الرجال کی شکل میں لاکھوں لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنا اسلامی تاریخ کا ایک معجزہ ہے۔!
لیکن یاد رکھیں یہ معجزہ ہمارا نہیں ہمارے اسلاف کا ہے، ہم آج بھی اس سے ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکے، جہاں صدیوں پہلے ہمارے بزرگ کھڑے تھے…!!
الا ماشاءاللہ! مستثنیات کا انکار نہیں، بلاشبہ مکتہ شاملہ اور جامع خادم الحرمین الشریفین وغیرہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام ہے، لیکن ایک تو یہ کام بہت محدود پیمانے پر کیا گیا ہے، دوسرا یہ ہے کہ جتنا ہوچکا ہوا ہے، اس کی افادیت و اہمیت سے شاید ایک فیصد مسلم باحثین اور ریسرچرز بھی واقف نہیں ہیں…!!
جبکہ دوسری طرف انگریزوں نے انسان تو انسان گاڑیوں اور اشیائے خور و نوش کے اتنے بڑے بڑے ڈیٹا بیس بنادیے ہیں کہ ایک کلک پر معلومات کا ایک سمندر کھل جاتا ہے، اور دوسری کلک پر اس سمندر سے آپ کا گوہر مقصود آپ کے سامنے ہوتا ہے…!!
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے تعلیمی و تحقیقی ادارے وسیع پیمانے پر اس پر توجہ دیں، مدارس اور یونیورسٹیز میں جدید ریسرچ ٹولز تفصیل کے ساتھ پڑھائے اور پریکٹس کروائے جائیں، اور محض کاپی پیسٹ سے بحوث، مقالات اور تھیسز تیار کرنے کی بجائے، بتایا جائے کہ کس طرح دنیا ان چیزوں سے بہت آگے بڑھ کر فائدہ اٹھا رہی ہے…!!
یاد رکھیں چیٹ جی بی ٹی جیسے ٹولز انتہا نہیں، یہ ایک نئے جہاں کی ابتدا ہے…!!
یہ آپ کو ختم کرنے کے لیے نہیں، آپ کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھانے والے ٹولز ہیں..!!

#خیال_خاطر