’طلاق’ ایک شرعی کام اور فعل ہے، جس کے ذریعے میاں اور بیوی کے درمیان وہ تعلق ختم ہوتا ہے، جو ’نکاح’ کے ذریعے قائم کیا جاتا ہے۔
نکاح کتنی خوشیوں سے کیا جاتا ہے! شادی کرتے وقت کتنے حسین جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے اور ایک ساتھ ساری زندگی گزارنے کے کتنے مضبوط عہد و پیمان کیے جاتے ہیں …!
آخر ایسا کیا ہوتا ہے کہ چند دنوں، مہینوں یا سالوں کے بعد وہ تمام جذبات سرد اور مغلوب ہو جاتے ہیں اور انسان طلاق کے ہتھوڑے سے نکاح جیسے مضبوط بندھن کو پاش پاش کر دیتا ہے۔
طلاق کی وجوہات کیا ہیں؟ اور معاشرے میں شرحِ طلاق کیوں بڑھ رہی ہے، اس کے مختلف اسباب بیان کیے جا سکتے ہیں، لیکن زیر نظر تحریر میں ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے، تاکہ کوئی شخص طلاق دینے کے بعد نادم اور شرمندہ نہ ہو اور اس وقت کفِ افسوس نہ مَلَے، جب اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے سے پہلے پانچ سے دس منٹ نکالیں اور تحمل مزاجی کے ساتھ درج ذیل آرٹیکل کو ملاحظہ فرمائیں۔
طلاق کی سوچ کیوں پیدا ہوتی ہے؟
طلاق کی سوچ میاں بیوی کے درمیان اختلافات سے پیدا ہونا شروع ہوتی ہے۔ گویا اگر اہم اختلافات کو شرعی اور فطری طریقے سے ڈیل کر لیں، تو عین ممکن ہے کہ معاملہ طلاق تک پہنچے ہی نہیں۔
یاد رکھیں اختلاف ہونا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک فطری چيز ہے، ہمیشہ سے اختلاف رائے ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ ہی رہے گا، لیکن اصل چیز یہ ہے کہ آپ کو اختلاف کے ساتھ زندگی گزارنے کا طریقہ آتا ہے یا نہیں؟
ہماری آنکھیں کمزور ہو جائیں تو ہم آنکھ نکال دیتے ہیں؟ ٹانگ کمزور ہو جائے تو اسے کٹوا دیتے ہیں، سماعت کمزور ہو تو کان جسم سے الگ کر دیتے ہیں؟ بالکل نہیں۔ بلکہ ہم اس مشکل اور کمزوری کا مناسب حل تلاش کرکے زندگی کو انجوائے کرتے ہیں۔
بلکہ مزید یہ بھي کہ اگر میاں بیوی کے علاوہ ہمارا کسی اور رشتے سے اختلاف ہو تو ہم اسے طلاق دیتے ہیں؟ اگر کوئی مالک ہے تو اختلاف ہونے پر ملازم کو نکال دیتا ہے؟ یا کوئی ملازم ہے تو ملازمت چھوڑ دیتا ہے؟ ماں کا بیٹے سے اختلاف ہوتا ہے، اولاد کا باپ سے اختلاف ہو سکتا ہے، استاذ، شاگرد، ایک انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ مختلف حیثیتوں سے جڑا ہوتا ہے، اور ان کے ساتھ ہونے والے اختلافِ رائے کو مناسب سے مناسب طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہی کچھ ہم نے میاں بیوی والے رشتے میں بھی کرنا ہوتا ہے، جو کہ ہم نہیں کرتے تو نوبت طلاق تک آ جاتی ہے۔
میاں بیوی کا اختلاف اور قرآنِ کریم کی نصیحت
اختلاف کے وقت قرآن کریم بایں الفاظ رہنمائی کرتا ہے:
“وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيراً”. [النساء:34]
’بیویوں کی نافرمانی کا سامنا کرنا پڑے تو انہیں نصیحت کرو اور سمجھاؤ، ان سے اپنے بستر الگ کر لو، ان کو تادیب کے لیے مار لو، اور اگر وہ تمہاری بات ماننا شروع کر دیں تو پھر تم ان کے خلاف سرکشی نہ کرو، بیشک اللہ تعالی بہت بلند اور بڑا ہے’۔
اس آیت میں اختلاف کے وقت تین مراحل کا ذکر ہے:
1۔ نصیحت کرنا، سمجھانا اور افہام و تفہیم کی زبان بولنا. اور بہت سارے اختلافات پہلے ہی مرحلے میں حل ہو جاتے ہیں، بشرطیکہ نیت اپنی بات تھوپنے کی بجائے مسئلہ حل کرنے کی ہو۔ میاں بیوی میں سے ہر کوئی خود کو دوسرے کی جگہ پر رکھ کر سوچے اور جو اپنے لیے پسند ہے اسی کی توقع دوسرے سے رکھے۔
2۔ میاں بیوی اپنے بستر الگ کر لیں۔ اگر افہام و تفہیم سے مسئلہ حل نہ ہو رہا ہو تو اس دوسرے مرحلے میں میاں بیوی جب دونوں کو ایک دوسرے کی اشد ضرورت ہوتی ہے، اس وقت ایک دوسرے سے دور ہو جائیں، اور یہ حکم مرد کو دیا گیا ہے کہ وہ بیوی سے علیحدگی اختیار کرے اور اس پر صبر بھی کرے، تاکہ دونوں کو اندازہ ہو کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر رہ سکتے ہیں یا نہیں؟ ظاہر ہے دونوں کا نکاح اکٹھے رہنے کے لیے ہی ہوا تھا، جب دونوں الگ ہوں گے تو انہیں احساس ہو گا کہ ہم نے اختلافات کو حل کرنا ہے، نہ کہ ان کو بڑھا کر ہم نے ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے دوری اختیار کرنی ہے۔
3۔ اگر بیوی پھر بھی اختلاف پر مصر رہے، تو پھر شریعت نے بیوی کو تادیبی طور پر مارنے کی بھی اجازت دی ہے، لیکن یہ مار جانوروں کی طرح نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ایسی مار اور سزا ہو، جس میں پیار اور محبت غالب ہو، اور جس کا مقصد اصلاح اور قریب کرنا ہو نہ کہ خود سے دور اور متنفر کرنا ہو۔
امید ہے بہت سارے لوگ جب ان تین مراحل سے گزریں گے تو ان کے اختلافات حل ہو جائیں گے، لیکن اگر خدانخواستہ اختلافات مزید سخت ہو جائیں اور میاں بیوی آپس میں انہیں حل نہ کر سکیں تو پھر قرآن کریم نے مزید نصیحت بھی کی ہے، جو اس سے اگلا مرحلہ ہے۔
صلح کے لیے ثالثی کمیٹی
میاں بیوی کی آپس میں صلح کی کوششیں عموما کارگر ثابت ہو سکتی ہیں، اگر اوپر بیان کردہ اقدامات کو صدقِ دل اور سنجیدگی کے ساتھ اپنایا جائے۔ لیکن اگر حالات پھر بھی درست نہ ہوں تو اس حوالے سے قرآن کریم نے ایک اور حل بھی بتایا ہے، ارشادِ باری تعالی ہے:
“وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلاَحًا يُوَفِّقِ اللّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا”. [النساء:35]
’اور اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان مخالفت کا اندیشہ ہو تو تم ایک مُنصِف مرد کے خاندان سے اور ایک مُنصِف عورت کے خاندان سے مقرر کر لو، اگر وہ دونوں ثالثی حضرات صلح کرانے کی سنجیدہ کوشش کریں گے تو اللہ دونوں میاں بیوی کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، بیشک اللہ خوب جاننے والا خبردار ہے’۔
ہمارے ارد گرد بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ بعض دفعہ انتہائی خطرناک قسم کے اختلافات اور مسائل جو کسی صورت حل ہوتے نظر نہیں آتے، جونہی اسے ثالث کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، پنچائیت اور مجلسِ مشاورت میں رکھا جاتا ہے تو اس میں حل کی بہت ساری راہیں نکل آتی ہیں۔
لہذا میاں بیوی کے اختلافات میں بھی طلاق سے پہلے اس سٹیپ/اقدام کو اختیار کرنا انتہائی زیادہ ضروری ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی کہے کہ میں اپنے معاملات دوسروں کو سامنے کیون رکھوں؟ تو یہاں تین باتیں ہیں:
1۔ ایک تو یہ ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ میرے اختلافات دوسروں کے سامنے نہ آئیں، تو یہ سوچ اچھی ہے، لیکن اس صورت میں جب یہ آپ کو اس بات پر ابھارے کہ آپ اپنے مسائل خود ہی حل کر لیں تاکہ انہیں دوسروں کے سامنے پیش نہ کرنا پڑے۔
2۔ لیکن اگر آپ خود جل کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ آپ اپنے قابل اعتماد لوگوں کو انوالو/شامل کرکے ان سے رہنمائی لے لیں، کیونکہ یہ بہرصورت آپ کے لیے ہی فائدہ مند ہے اور اس میں اگر آپ کے ذہن میں یہ بات آ رہی ہے کہ میں اپنے مسائل دوسروں کے سامنے کیوں رکھوں تو ہو سکتا ہے کہ یہ شیطانی وسوسہ اور وہم ہو، جو آپ میاں بیوی کو اکٹھا دیکھنا نہیں چاہتا۔
3۔ نہ آپ مسائل کو خود حل کریں، نہ کسی کو اس میں شامل کریں بلکہ معاملات سے دلبرداشتہ ہو کر طلاق دے دیں، تو یاد رکھیں طلاق سے پہلے تو آپ کے اختیار میں تھا کہ آپ کسی کو شامل کریں یا نہ کریں.. لیکن طلاق کے بعد ضرور بالضرور دیگر لوگوں تک یہ بات پہنچے گی اور وہ مداخلت بھی کریں گے اور آپ کے پاس اختیار بھی نہیں ہو گا کہ آپ اپنے اس ’پرسنل میٹر’ سے دوسروں کو دور رکھ سکیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ ثالثی کمیٹی والے قرآنی حکم پر عمل کریں اور شیطانی وسوسوں میں الجھ کر اپنے گھر کو تباہ نہ کریں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ طلاق عموما جذباتی فیصلہ اور فوری غصہ اور اُبال ہوتا ہے، جس کو کنٹرول کیا جائے نہ کہ اس کی تعمیل کرکے اس کے پیچھے چلا جاے۔ اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ طلاق دینے سے پہلے ان مختلف مراحل سے خود کو گزارا جائے اور قرآنی نصیحتوں پر غور و فکر کیا جائے، یقینا یہ اس وقتی غصے اور اُبال کے لیے ایک اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔
مجبورا اگر طلاق دینا ہی پڑ جائے تو اس کی تفصیل درج ذیل مضمون میں دیکھیں: