جس طرح نکاح ایک شرعی حکم ہے اور اس کے اصول و ضوابط ہیں، اسی طرح ’طلاق’ بھی ایک شرعی اقدام ہے، لہذا شریعت کے مطابق طلاق کا طریقہ جاننا ضروری ہے۔

اگر آپ میاں بیوی کے آپسی اختلافات کے سبب طلاق کا ارادہ کیے بیٹھے ہیں، تو برائے مہربانی طلاق کا طریقہ سمجھنے کے لیے درج ذیل تحریر کو لازمی پڑھ لیں:
طلاق دینے سے پہلے یہ کام ضرور کریں
اگر مذکورہ تحریر میں بیان کردہ تمام مراحل سے آپ گزر چکے ہیں اور آپ ابھی بھی اس بات پر مصر ہیں کہ طلاق ہی آپ کے مسائل کا حل ہے، تو پھر طلاق کا درست طریقہ جاننے کے لیے درج ذیل تحریر کو غور سے ملاحظہ فرمائیں۔

طلاق کا شرعی حکم کیا ہے؟

طلاق کوئی محبوب اور پسندیدہ عمل نہیں ہے کہ جسے خوشی اور رغبت سے سر انجام دیا جائے، بلکہ ایک اضطرار اور گنجائش ہے کہ بوقت ضرورت اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔

طلاق دینے سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ شیطان جس طرح انسان کو اور بہت ساری برائیوں اور الجھنوں کا شکار کرنا چاہتا ہے، اسی طرح میاں بیوی میں لڑائی کروانا اور ان میں طلاق دلوانا بھی اس کا ایک پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اس حوالے سے درج ذیل حدیث ملاحظہ کیجیے:

جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“إن إبليس يضع عرشه على الماء. ثم يبعث سراياه. فأدناهم منه منزلة أعظمهم فتنة. يجئ أحدهم فيقول: فعلت كذا وكذا. فيقول: ما صنعت شيئا. قال ثم يجئ أحدهم فيقول: ما تركته حتى فرقت بينه وبين امرأته. قال فيدنيه منه ويقول: نعم أنت”. قال الأعمش: أراه قال “فيلتزمه “. [صحيح مسلم:2813]

’ابلیس اپنا تخت پانی پر لگاتا ہے اور پھر شیطانوں کے لشکر روانہ کرتا ہے، ابلیس کے سب سے قریب وہ شیطان ہوتا ہے جو زیادہ فتنہ پرور ہوتا ہے، ایک شیطان آ کر کہتا ہے کہ میں نے یہ یہ فتنہ ڈالا ہے، تو وہ کہتا ہے کہ تم نے کچھ نہیں کیا، یہاں تک کہ ایک شیطان آ کر کہتا ہے کہ میں ایک آدمی کے پیچھے لگا رہا یہاں تک کہ میں نے اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان علیحدگی کروا کر دم لیا، تو شیطان اسے اپنے قریب کر کے سینے سے لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ تم نے صحیح کارنامہ سر انجام دیا ہے’۔

اس قسم کی نصوص سے استدلال و استیناس کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“الأصل في الطلاق الحظر، وإنما أبيح منه قدر الحاجة…”.

’طلاق میں اصل یہی ہے کہ یہ ممنوع ہے، صرف ضرورت اور مجبوری میں اس کی گنجائش دی گئی ہے‘۔

لہذا طلاق کا عزم اور فیصلہ کرتے وقت، طلاق کا طریقہ سمجھتے ہوئے اس نقطے کو ذہن میں رکھا جائے کہ کیا واقعتا حالات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ اب اس اضطراری عمل کو کرنا ضروری ہو گیا ہے؟!

صرف ایک بار طلاق دیں

شریعت میں تین طلاق کی گنجائش ہے، لیکن بوقتِ ضرورت ایک طلاق دے دینا کافی ہے۔ ایک ہی وقت میں ایک سے زائد طلاق دینا درست نہیں۔ صحابی رسول محمود بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
«أُخْبِرَ رسولُ الله صلى الله عليه وسلم عن رجلٍ طَلَّقَ امرأتَهُ ثلاثَ تطليقاتٍ جميعًا، فقامَ غضبانًا ثم قال: “أيُلْعَبُ بكتابِ الله وأنا بينَ أَظْهُرِكُم؟». [سنن النسائي 6/ 265 برقم 3401]

’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے بارے میں خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: کیا اللہ کی کتاب کو کھیل بنا لیا جائے گا حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں؟‘

گویا اکٹھی تین طلاقیں دینا یہ شریعت کے ساتھ مذاق ہے۔

لہذا صرف ایک طلاق دی جائے اور میاں بیوی اکٹھے ایک ہی گھر میں رہیں، اسی طرح عدت کے اندر اندر اگر رجوع کرنے کا ارادہ بن جائے تو رجوع کر لیا جائے، ورنہ عدت مکمل ہونے پر نکاح ختم ہو جائے گا اور میاں بیوی دونوں علیحدہ ہو جائیں گے، حتی کہ عورت اگر آگے کہیں شادی کرنا چاہے تو بھی کر سکتی ہے، اس کے لیے تین طلاقیں دینا ضروری نہیں ہے۔

علیحدگی والا جو کام تین طلاق نے کرنا ہے، وہ ایک طلاق سے بھی ہو جاتا ہے، لیکن فرق صرف یہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش ہوتی ہے، جبکہ تین طلاقیں ہو جانے کے بعد رجوع کی گنجائش بالکل ختم ہو جاتی ہے۔

لہذا انسان کو طلاق کا طریقہ جان کر خود سمجھداری کا ثبوت دینا چاہیے اور اپنے لیے گنجائش باقی رکھنی چاہیے، ورنہ یہ کیسی احمقانہ حرکت ہے کہ ایک کی بجائے تین طلاقیں خود دے لی جائیں اور بعد میں علمائے کرام سے منتیں کی جائیں کہ میرے لیے کوئی گنجائش نکال دو… اللہ کے بندے گنجائش آپ کو اللہ نے دی تھی، لیکن آپ نے خود اس کو ختم کیا ہے اور خود اپنے لیے تمام دروازے بند کیے ہیں…!

ہم بستری کرکے طلاق دینا جائز نہیں

انسان جذبات اور جلد بازی کا شکار ہو کر فوری کوئی فیصلہ نہ کرے، اس کے لیے شریعت نے طلاق کے مختلف آداب اور احکامات لاگو کیے ہیں، انہیں میں سے ایک یہ ہے کہ جب طلاق دینی ہو تو اس طہر (پاکی) میں طلاق نہ دی جائے، جس میں میاں بیوی نے آپس میں ملاپ اور صحبت کی ہوئی ہوتی ہے۔ بلکہ انتظار کیا جائے کہ وہ پاکی والا مرحلہ گزر جائے،پھر حیض آ جائے اور پھر پاکی والی حالت میں عورت آئے تو اس سے ملاپ سے پہلے پہلے طلاق دی جائے۔ طلاق دینے کا درست اور جائز طریقہ یہی ہے اور اس کا ایک اہم ترین فائدہ یہ ہے کہ انسان فوری طور پر طلاق دینے کی بجائے اسے سوچنے اور غور و فکر کا موقع مل جاتا ہے۔

حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے

جس طرح جماع والے طہر میں طلاق دینا جائز نہیں، اسی طرح حالتِ حیض میں طلاق دینا بھی حرام ہے۔ بعض جذباتی قسم کے لوگ طلاق دیتے ہوئے اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کرتے کہ عورت کس حالت میں ہے؟ غصے میں آکر فورا طلاق بول دیتے ہیں اور بعد میں نادم اور شرمندہ ہوتے ہیں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک صحابی نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں دی تو آپ نے حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو واپس لوٹائے، پھر انتظار کرے یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے، پھر حیض آئے پھر پاک ہو جائے تو پھر طلاق دینا چاہے تو دے۔ [متفق عليه]

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات کا بول بالا ہو اور ہمارا فیملی سسٹم مضبوط سے مضبوط تر ہو اور اگر کوئی شخص طلاق کے لیے مجبور ہو ہی جائے تو اللہ رب العالمین اسے کوئی بھی اقدام کرنے سے پہلے طلاق کا طریقہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔


طلاق کے بعد رجوع کرنے کا طریقہ