بظاہر ہم ایک اسلامی ریاست میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں اس ملک کو حاصل کرنے کا مقصد یہی تھا کہ ہم اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزاریں گے لیکن کیا ہم واقعی اسلامک تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزار رہے ہیں…؟؟
آپ شاید بات سمجھے نہیں چلیں آپ نیچے دی گئی تصویر دیکھیں
قارئین آپ اس تصویر کو دیکھ کر تخیلاتی دنیا میں یہ طے کرنے لگیں گے کہ یہ کوئی ماڈرن قسم کے سینما گھر کی تصویر ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے ۔۔۔
بلکہ میں اپکو اس بارے بتاتا چلوں کہ یہ لاہور کے ایک معروف تعلیمی ادارے سے لی گئی تصویر ہے یہ تصویر بندہ ناچیز نے خود لی ہے ۔۔۔۔۔

اچھا میری حیرانی ان لگے پوسٹرز سے تو تھی لیکن مزید حیرانی میں اضافہ تب ہوا جب یہ پتا چلا کہ تصویر میں نظر آنے والی سیڑھیاں سیدھا اسلامک ڈیپارٹمنٹ کی طرف جا رہی ہیں یعنی یہاں سے گزر کر طلباء وطالبات اسلام کے بارے پڑھنے جاتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسلامک ریسرچ اسکالرز بھی یہیں سے گزر کر پاکستانی مستقبل سنوارنے جاتے ہیں اور معاشرے کو اسلامک اصولوں پر قائم کرنے کی جدو جہد کرتے ہیں ۔۔۔

پہلے زمانے میں تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی زور دیا جاتا تھا، گھروں میں بزرگ اور کلاس رومز میں اساتذہ بچّوں کی اخلاقی تربیت پر بہت دھیان دیتے تھے، لیکن آج تو مادر پدر آزاد معاشرے پروان چڑھ رہا ہےاور اس مورال لیس سوسائٹی کے ذمّے دار کہیں نہ کہیں ہم سب ہی ہیں کہ والدین یہ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ ہماری اولاد فرفر انگریزی بول رہی ہے، مگر یہ انگریزی وہ کس قِسم کی فلمیں، گانے دیکھ کر سیکھ رہی ہے، اس سے اُنہیں کوئی سرو کار نہیں۔ اس کی ایک زندہ مثال یہ لگے فلمی پوسٹرز ہیں
اسی طرح اساتذہ کو لگتا ہے کہ بس نصاب پورا کروانا ہی اُن کی ذمّے داری ہے۔ جب تک ہم بچّوں کے لیے حدود کا تعیّن نہیں کریں گے، انہیں اچھے بُرے کی تمیز نہیں سکھائیں گے، اپنی اقدار سے روشناس نہیں کروائیں گے، تب تک تعلیمی اداروں کے اندر اس قسم کے غیر اخلاقی و شرعی کام ہونے کو معیوب نہیں سمجھا جائے گا ۔۔۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ تعلیمی اداروں میں جو بگاڑ پیدا ہو رہا ہے، اس کا ذمّے دار اس طرح کی حرکتیں کرنے والے تعلیمی ادارے ہی ہیں۔ کیونکہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کا صرف مطمع نظر فیسز ہیں اور اساتذہ نے اپنا کام صر ف بر وقت کلاس میں آنے، لیکچر دینے اور نصاب پورا کروانے ہی تک محدود کرلیا ہے کوئی اخلاقی تربیت نہیں ہے ،کوئی اس طرح کے فحش پوسٹرز پر دل افسردہ نہیں ہے کوئی اس پر احتجاج نہیں ہے سب نارمل ہے کیونکہ من حیث القوم ہمیں برائی برائی محسوس ہوتی ہی نہیں ہے ۔۔۔۔
ایسے میں نسل نو تعلیم تو حاصل کر رہی ہے، لیکن تربیت نہیں۔
اگر آج کوئی ان تعلیمی اداروں میں ہونے والی خرافات کی نشاہدہی کروائے کوئی ان کی غلط حرکتوں کو ہائی لائٹ کرے تو اس اسلامی روایات، اقدار کی بات کرنے والے کو دقیانوسی یا بیک وَرڈ کہہ کر طعنہ دیا جاتا ہے ۔۔۔

اب زرا تحمل مزاجی سے ہم سب سوچیں کہ ان پوسٹرز کا ایک تعلیمی ادارے میں کیا کام ہو سکتا ہے ؟

کیا ماضی میں ہمارے تعلیمی اداروں کا یہی طریقہ تعلیم رہا ہے ؟
اس طرح کے پوسٹرز لگا کر ہم ادارے میں آنے والے بچوں کی کیا ذہن سازی کر رہے ہیں ؟؟
اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے ایک تعلیمی ادارے میں یہ انداز کس حد تک اخلاقیات سے مماثلت و مخالفت رکھتا ہے ؟

یہ کہنا بھی بعید نہیں ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں اکثر ادارے مکمل طور پر فحاشی کے اڈے بن چُکے ہیں، بلکہ اب تو طلباء کو سنیما ہاوس جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی،یونیورسٹیز میں ہی ویلکم پارٹی کے نام پر فحاشی و بےحیائی سے منسلک رقص و سرور کی محافل سجا کر نوجوان نسل کی جوانیوں کو داغ دار کیا جارہا ہے.جب ہمارے تعلیمی ادارے آنے والی نسل کو تعلیم ہی ایسی دے رہے ہیں تو پھر آئے روز کالج و یونیورسٹیز میں لڑکے و لڑکی کے ناجائز تعلق کا سن کر ہم چیختے کیوں ہیں ؟

مجھے ڈر ہے جو خواب ہمارے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے دیکھا، نوجوانوں کو شاہین کے نام سے پکارا گیا کہیں یہ سب خاک میں نہ مل جائے.
ان تمام چیزوں کو بیان کرنے کاصرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے پاکستان کی جوان نسل کی اکثریت اس طرح کے تعلیمی اداروں سے وابستہ ہے تو میری اداروں کے سربراہان سے گزارش ہے براہ کرم یہ گندا اور فلمی کلچر اداروں سے ختم کریں بلکہ اس آنے والی نسل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کے مطابق ترںیتی ورکشاپ کروائیں تاکہ ایک مثالی معاشرہ قائم ہو سکے ۔اگر تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری نسلیں تباہ اسی وقت ہوئی پیں جب وہ غفلت میں پڑ گئیں۔ اور ہمارے تعلیمی اداروں میں اس طرح کے لگے پوسٹرز ہماری غلفت کا منھ بولتا ثبوت ہیں
اور یاد رکھیں بلکہ میری اس بات کا سکرین شاٹ لے کر موبائل میں سیو کر لیں کہ اگر اس پر بروقت روک تھام نہ کی گئی تو آنے والے وقت میں پاکستان بھی یورپ بن جائے گا یعنی ماں کو پتا ہی نہیں ہوگا کہ اس کا بیٹے کا اصل باپ کون ہے۔

 

✍️ کامران الہیٰ ظہیر