سوال

آج کل یہ کاروبار گردش کر رہا ہے، کہ کوئی پلازہ ایک یا دو سال بعد بننا ہوتا ہے۔ لیکن انویسٹر فوری طور پر دکانیں وغیرہ سیل کرکے، ان کے مکمل پیسے وصول کر لیتے ہیں۔ اور جب پیسے وصول کرتے ہیں، تو ان کو دوکانوں کا کرایہ دینا شروع کر دیتے ہیں ۔ حالانکہ بعض دفعہ تو دکانیں کیا پلازہ بھی ابھی تیار نہیں ہوا ہوتا۔ اور بعض دفعہ اگرچہ ڈھانچہ تیار ہوجاتا ہے، لیکن دکانیں وغیرہ اس حالت میں نہیں ہوتیں کہ وہ کسی کو کرائے پر دی جاسکتی ہوں۔
کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

آپ نے جو دونوں صورتیں ذکر کی ہیں، یہ پیسے کے بدلے پیسہ دیا جا رہا ہے، جو کہ بالکل سود اور حرام ہے، جس کی شرعی طور پر قطعا اجازت نہیں ہے۔سوسائٹی مالکان یا انویسٹرز، خریداروں کو جو پیسے دے رہے ہیں، وہ کس چیز کے بدلے میں ہے؟ بینک میں جب کوئی آدمی پیسے رکھتا ہے، تو وہ بھی اسی طرح پیسے کے بدلے میں پیسہ ادا کرتے ہیں، جو کہ حرام ہے۔ شریعت میں ایسے کسی کاروبار کی قطعا گنجائش نہیں ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ