(قسط اول)
عرصہ سے اس موضوع پر بوجوہ لکھنا نہیں چاہتا تھا. لیکن گزشتہ روز قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں PDM حکومت نے غیرملکی آقاؤں کی ایماء پر اور ان کی خوشنودی کی خاطر غیر شرعی غیر اسلامی ٹرانسجینڈرزم کے فروغ کے لیے جو الیکشن ترامیم منظور کیں، اس تناظر میں اب ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے پاس دستیاب حقائق کو پیش کروں. حالانکہ ایک عام اسلام پسند پاکستانی کی طرح میں ہمیشہ اس بات کا قائل رہا ہوں کہ ہماری دینی جماعتیں ہمارا اثاثہ ہیں. پارلیمنٹ کے ایوانوں میں دینی جماعتوں کی موجودگی خواہ ان کا تعلق کسی بھی مسلک سے ہو، کسی نعمت سے کم نہیں نیز یہ حسن ظن بھی رہا کہ ان جماعتوں کی نمائندگی کی بدولت پارلیمنٹ میں شریعت سے متصادم قانون سازی ناممکن ہے.
2018ء میں جب غیر شرعی اور غیر اسلامی ٹرانسجینڈرز ایکٹ اسی پارلیمنٹ سے پاس ہوا اور دینی حلقوں اور سوشل میڈیا میں اس پر بڑی شد ومد سے بحث وتمحیص ہوئی تو دینی جماعتوں کی طرف سے مختلف وضاحتیں آنے لگیں.
پاکستان میں 36 سال سے اھل حدیث کے امیر، انگریزی زبان میں PhD (جو Genderکے ساتھ Trans کے سابقے کا مفہوم یقینا جانتے بھی ہوں گے)، ربع صدی سے سینیٹ کے تجربہ کار ترین ممبر، جناب سینیٹر پروفیسر ساجد میر صاحب نے یہ توجیہہ پیش کی کہ ٹرانسجینڈرز ایکٹ منظور کرتے وقت دینی جماعتوں کو #اندھیرے میں رکھا گیا. ایک آدھ اخباری بیانات کے علاوہ اس غیر شرعی غیر اسلامی قانون کے خلاف سینیٹر پروفیسر ساجد میر صاحب کی طرف سے کوئی قابل ذکر سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملی.
جمعيت علمائے اسلام کے ممبران نے اپنی سادہ لوحی کو تسلیم کرتے ہوئے یہ توضیح دی کہ ہم نے اس قانون کے انگریزی مسودہ کو نہیں دیکھا بلکہ ہمیں تو صرف اردو مسودہ دیا گیا تھا جس میں ٹرانسجینڈرز کی بجائے خواجہ سرا کا لفظ تھا. اس لیے ہم مغالطے میں رہے. محترمہ نعیمہ کشور صاحبہ واحد MNA تھیں جنہوں نے اسمبلی فلور پر اس کی مخالفت کی جسے اس وقت کے سپیکر نے مسترد کر دیا. مولانا فضل الرحمن صاحب نے متعدد میڈیا بریفنگز میں اس غیر اسلامی غیر شرعی قانون کو کالعدم قرار دلوانے کے لیے اپنے بھرپور سیاسی کردار کو ادا کرنے کا عزم کیا. بعد ازاں جمعیت علمائے اسلام نے سینیٹر کامران مرتضی صاحب (ایڈووکیٹ سپریم کورٹ) کے توسط سے وفاقی شرعی عدالت میں اسے چیلنج بھی کر دیا.
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب، جو ٹرانسجینڈرز ایکٹ کی منظوری کے وقت سینیٹ کے ممبر تھے، نے کبھی کوئی وضاحت تو نہ دی البتہ سینیٹر مشتاق احمد صاحب نے پہلے پارلیمنٹ کے ایوان اور قائمہ کمیٹیوں میں اس کے خلاف بھرپور جنگ لڑی. ترمیمی اور متبادل بل پیش کیے اور بعد ازاں وفاقی شرعی عدالت میں زیر سماعت شریعت پٹیشنز میں فریق بھی بنے. یہاں قارئین کے لیے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ وفاقی شرعی عدالت میں سینیٹر مشتاق احمد خان انفرادی طور پر شریعت پٹیشنز کا حصہ تھے، جماعت اسلامی بطور جماعت شرعی عدالت میں قطعا فریق تھی نہ کبھی جماعت اسلامی کی جانب سے یا اس کے نام سے کوئی پٹیشن دائر کی گئی.
ریکارڈ کی درستگی کے لیے مزید وضاحت بھی ضروری ہے کہ ٹرانسجینڈرز ایکٹ کے خلاف سب سے پہلی آواز کسی جماعت نے نہیں بلکہ اسلام آباد کے رہائشی حماد حسین نامی ایک عام سے نوجوان نے اٹھائی تھی جس نے وفاقی شرعی عدالت میں 2019ء میں پٹیشن دائر کی، جس کا تعلق کسی سیاسی یا دینی جماعت سے نہیں ہے. جس کے بعد ایک اور پچیس چھبیس سالہ محب وطن نوجوان محمد بن ساجد نے بھی ایک شریعت پٹیشن فائل کی. یہ پٹیشن بھی انفرادی کاوش اور انفرادی حیثیت میں تھی. پھر متعدد افراد، این جی اوز اور جناب سینیٹر مشتاق احمد صاحب بھی فریق بنے.
افراد کے علاوہ دینی جماعتوں میں سے جمعیت علمائے اسلام کی پٹیشن سال 2022ء میں دائر ہوئی. اہل تشیع کی جانب سے سید ساجد علی نقوی صاحب اور تنظیم اسلامی نے بھی علیحدہ پٹیشنز فائل کیں. یعنی بطور دینی جماعت صرف تین جماعتوں (جمعیت علمائے اسلام، تنظیم اسلامی اور اہل تشیع) نے شرعی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا.
اس دوران اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی سفارشات مرتب کیں اور ٹرانسجینڈرز ایکٹ کو شریعت سے متصادم قرار دے دیا.
یہ امر قابل ذکر ہے کہ دینی جماعتوں سے کہیں زیادہ دینی غیرت وحمیت، دلیری، ہمت، جرات اور استقامت معاشرے کے مظلوم اور نادار خنثی intersex اور eunuch (خواجہ سرا) افراد اور ان کی تنظیموں نے دکھائی. اس کا سہرا ندیم کشش Nadeem Kashish ، الماس بوبی اور جولی کو جاتا ہے جنہوں نے اپنے اندر عرصہ دراز سے قائم اختلافات کی وسیع خلیج کو فی الفور ختم کر کے مکمل یکسوئی اور یکجہتی سے اس قانون کے خلاف جدوجہد اور مزاحمت کا آغاز کیا. یہ لوگ کم وبیش ہر سماعت پر دھمکیوں اور دباؤ کے باوجود نہ صرف خود پیش ہوتے ریے بلکہ اپنی کمیونٹی کو بھی متحرک اور فعال رکھا. اسلام آباد اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر مظاھرے اور متعدد پریس کانفرنسز منعقد کر کے اس قانون کی سنگینی اور اسلامی اقدار اور معاشرت پر حملہ قرار دیتے رہے. یعنی جو فریضہ دینی جماعتوں کا تھا اسے خنثی اور eunuch (خواجہ سرا) افراد نے نبھایا. شرعی عدالت میں جب بھی خنثی اور خواجہ سرا افراد کے جذبے اور یگانگت کو دیکھتا تو بے اختیار رفقاء سے کہتا کہ حقیقت میں یہ لوگ #پارلیمنٹ کے #جرم کا #کفارہ ادا کر رہے ہیں اور ان لوگوں نے:
ے. وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
اسی طرح سول سوسائٹی میں ماریہ بی اور ان کی خواتین رفقاء کا کردار نہایت مثالی رہا جنہوں نے ہر موقع اور ہر پلیٹ فارم پر ہراول دستے کا کردار نبھایا اور آج تک بفضل اللہ مخالفین کے رکیک حملوں کے باوجود جرات اور دلیری سے مقابلہ کر رہی ہیں.
اس غیر اسلامی غیر شرعی قانون کے خلاف سول سوسائٹی، ہر مسلک کے افراد، دینی جماعتوں کے علاوہ سنجیدہ علمی حلقوں میں پائی جانے والی تشویش، اضطراب اور سیاسی دباؤ کے باعث پاکستان مسلم لیگ ن کے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ صاحب اور پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ صاحب نے 22 ستمبر 2022ء کو پریس کانفرنس میں قوم سے وعدہ کیا کہ ٹرانسجینڈرز ایکٹ پر وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ حتمی ہو گا.
ٹرانسجینڈرز ایکٹ کے خلاف ایک درجن شریعت پٹیشنز اور متعدد متفرق درخواستوں کو یکجا کرکے وفاقی شرعی عدالت نے 19 مئی 2023ء کو تاریخ ساز فیصلہ سنایا اور اس قانون کی متعدد دفعات کو غیر اسلامی اور غیر شرعی قرار دے دیا. جسے پاکستان کے عوام کی بہت بڑی اکثریت، دینی حلقوں اور سول سوسائٹی نے سراہا اور اس فیصلے کو وطن عزیز کی نظریاتی اساس کی فتح قرار دیا.
وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد تمام جماعتوں بالخصوص پارلیمنٹ میں اور حکومتی اتحاد PDM موجود دینی مذھبی جماعتوں (مرکزی جمعیت اھل حدیث، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، جماعت اسلامی) کی ذمہ داری تھی کہ وہ شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کروانے کے لیے وفاقی حکومت پر پورے اتحاد، اتفاق اور یک جہتی کے ساتھ اپنا سیاسی وزن، دباؤ اور اثر ورسوخ بروئے کار لاتیں تاکہ قوم کو اس قبیح قانون سے نجات حاصل ہو پاتی لیکن ….. (جاری)

ڈاکٹر رضوان اسد خان