بات تو مَحبّتوں کا رُخ بدلنے اور دھارے تبدیل کرنے ہی کی ہُوا کرتی ہے۔بے تاب خواہشوں اور مضطرب جذبات و احساسات کو لگام ڈال کر مستقیم راہوں پر ڈالنے اور ڈھالنے کی کاوش انسان کی زندگیوں کو انقلاب انگیز اور گلاب آفریں بنا دیا کرتی ہے۔لاریب ہر انسان کا سینہ مَحبّتوں کی گہرائی اور گیرائی سے آشنا ہوتا ہے۔اگر سَمتیں درست نہ ہوں اور مقصود و مطلوب بھی عامیانہ ہو تو پھر راہِ جنوں میں آبلہ پائی کا رتّی برابر فائدہ نہیں ہوتا، پھر قید و بند کی صعوبتیں بھی رایگاں، بے معنی اور بے مصرف ٹھہرتی ہیں۔مَحبّتوں اور چاہتوں کو تجریدی آرٹ کے کسی فن پارے کی مانند تو نہیں ہونا چاہیے کہ سمجھ میں ہی نہ آئے کہ مَحبّت کس سے کی جا رہی ہے اور اس کی منزل کیا ہے؟ چاہتیں اور الفتیں واضح واشگاف اور راست سَمت پر گامزن ہوں تو پھر کامیابی راستے کی خاک بن کر قدموں کو چوم لیا کرتی ہے۔یہ تو ممکن ہے کہ کسی ناؤ کے مسافروں کی غلطی اس قدر ہلاکت خیز ثابت نہ ہو، البتہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ناؤ کے کھیون ہار پُر پیچ راہوں کا انتخاب کر کے بھٹکنے لگیں اور کشتی سمندر بُرد ہونے سے بچ جائے۔اس مُلک میں کتنے ہی حکمران آئے، ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنھوں سے جس ہانڈی میں کھایا اسی میں چھید کیے۔کچھ نے امریکا و بھارت کے ساتھ مَحبّتوں کی پینگیں بڑھائیں۔وہ لوگ آج قصّہ ء پارینہ بن چکے، اُنھوں نے اپنی مَحبّتوں کا رخ بھارت اور امریکا کی طرف موڑا۔وہی بھارت جس کے متعلق مثل مشہور ہے کہ” بنیا جس کا یار اُس کو دشمن کیا درکار “
پاکستان کے پانچ دریا آج اگر تشنگی سے نڈھال رَیت اڑاتے دِکھائی دیتے ہیں تو یہ سب کچھ بھارتی” مَحبّت “ کا نتیجہ ہے۔بھارتی” عشق“ کا شاخسانہ تھا کہ اس نے دو باقاعدہ جنگیں پاکستان پر مسلّط کیں۔آج وہی بھارت ہمارے پانچ دریاؤں کا پانی اپنی موٹی توند میں لیے بیٹھا ہے۔مَیں ماضی کے بے شمار گھاؤ اور زخموں کو کرید کر درد و کرب میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا البتہ میرے دل میں پاکستانی سیاست دانوں کے لیے نیک تمنّائیں اور مَحبّت آفریں خواہشات ضرور ہمکتی ہیں کہ اب تو اپنی چاہتوں کا رُخ ممبئی اور وائیٹ ہاؤس کی بجائے مکّہ و مدینہ کی طرف کر دیجیے! مَیں مانتا ہوں کہ موجودہ جمہوری نظام میں امریکا کے ساتھ پنگا لینا کوئی دانش مندی نہیں ہے اور نہ ہمارے سیاسی پہلوانوں کے ڈولے اتنے مضبوط اور توانا ہیں کہ وہ امریکا کے ساتھ براہِ راست کوئی پنجہ لڑا سکیں، مَیں یہ بھی ہر گز نہیں چاہتا کہ ہم خواہ مخواہ بھڑوں کے چھتّے میں ہاتھ ڈال کر اپنا نقصان کروا بیٹھیں۔میری خواہش فقط اتنی سی ہے کہ ہم اور ہمارے سیاسی زعما اپنی مَحبّتوں کا رُخ اللہ اور اس کے رسولؐ کی جانب موڑ دیں۔
امریکا اور بھارت دو ایسے منافق یار ہیں جو دشمنوں کے ساتھ تو کچھ رعایت برت سکتے ہیں مگر اپنے دوستوں کے نبھا اور وفا کرنا ان کی سرشت اور خُو میں شامل ہی نہیں۔امریکا کو دیکھ لیجیے! وہ کبھی 1954 ء میں گوئٹے مالا کی حکومت کا تختہ الٹتا ہے تو کبھی 1991 ء میں ہیٹی کے جمہوری صدر جین برٹ رانڈ کی حکومت کو ختم کرتا ہے۔1975 ء تا 1999 ء مشرقی تیمور میں ہلاک کیے جانے والے اڑھائی لاکھ افراد کی لاشیں امریکی بھیانک کردار کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔1984 ء تا 1999 ء کے دوران ترکی میں انتہا پسندی کے نام پر 30 ہزار کُردوں کی لاشیں امریکی درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔1966 ء تا 1985 ء گوئٹے مالا کے ایک لاکھ افراد کا خون امریکا پی گیا۔انڈونیشیا میں 1965 ء اور 1966 ء میں ساڑھے سات لاکھ افراد کو سفاکیت کے ساتھ قتل کرنے والا امریکا ہی ہے۔1990 ء میں عراق پر پابندی عائد کر کے دس لاکھ لوگوں کی زندگیوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے والا یہی امریکا ہے۔2001 ء میں افغانستان اور 2003 ء میں عراق پر باقاعدہ جنگ مسلّط کرنے والا بھی امریکا ہی ہے۔امریکا ہی وہ خوں خوار ہے جس نے 1980 ء تا 1988 ء انگولا اور موزمبیق میں 14 لاکھ افراد ہلاک کیے۔جہاں زیب ساحر کا شعر ہے۔
یہ اپنے دَور کے سب سے بڑے منافق ہیں
اسی لیے تو زبانوں سے خون بہتا ہے
بھارت کے متعلق ہمارے تقریباً تمام سابقہ حکمران میٹھے میٹھے بیانات دیتے رہے ہیں مگر بھارت کی طرف سے جوابات ہمیشہ بڑے ہی کڑوے کسیلے آتے رہے۔ہمارے ایک سابقہ وزیرِ اعظم نے اپنی تقریبِ حلف برداری میں من موہن سنگھ کو آنے کی دعوت دی تھی مگر من موہن سنگھ نے انکار کر دیا تھا۔ہمارے اسی وزیرِ اعظم نے کہا ” بھارت بلائے نہ بلائے، مَیں بھارت ضرور جاؤں گا “ من موہن سنگھ کی طرف سے جواب آیا” ہمیں پڑوسی ممالک سے شدید خطرات ہیں “
آج تک پاکستان کے متعلق بھارت کا دل، کینہ کپٹ سے اَٹا ہے، وہ 22 کروڑ پاکستانیوں کو پیاس سے مارنا چاہتا ہے۔بھارت کی آبی دہشت گردی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔دریائے سندھ پر 6 متنازع منصوبوں کی تعمیر شروع کر دی گئی ہے۔بھارت، دریائے سندھ پر 12 میگا واٹ کا پَن بجلی منصوبہ اور 19 میگا واٹ کا دربک شیوک ہائیڈرو پاور منصوبہ تعمیر کر رہا ہے، یہی نہیں بلکہ وہ 24 میگا واٹ کے نیمو شلنگ منصوبے، 25 میگا واٹ کے کارگل ہنڈر مین منصوبے اور 19 میگا واٹ کے منگدم سنگرا منصوبے کی تعمیر کا اعلان بھی کر چکا ہے۔امیر رضا مظہری کا بہت خوب صورت شعر ہے۔
تم کسی کے بھی ہو نہیں سکتے
تم کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حقیقی مَحبّت اللہ اور اس کے رسولؐ ہی کی ہے، ریاستِ مدینہ کے داعیوں کو تو بالخصوص اپنی چاہتوں کا رُخ مکّہ و مدینہ کی طرف موڑ دینا چاہیے اور ایسا محض بیانات کی حد تک نہیں بلکہ عملی طور پر ہونا چاہیے۔فیصل عجمی کے اشعار دیکھیے!
رختِ سفر ہے اِس میں قرینہ بھی چاہیے
آنکھیں بھی چاہییں دل بینا بھی چاہیے
دل کہ رہا تھا اور گھڑی تھی قبول کی
مکّہ بھی چاہیے ہے مدینہ بھی چاہیے