تمہارا رزق آسمانوں میں ہے۔
⇚ حنبل بن اسحاق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
جب (بغداد کی پولیس کے سربراہ) اسحاق بن ابراہیم نے امام عفان بن مسلم بن عبد اللہ رحمہ اللہ کو خلق قرآن کے متعلق آزمانے کے لیے بلایا تو اس کے بعد میں امام احمد اور یحیی بن معین کے ساتھ ان کے پاس تھا، اس معاملے میں سب سے پہلے انہیں ہی آزمایا گیا تھا، امام یحیی بن معین رحمہ اللہ نے اس آزمائش کے اگلے دن عفان سے پوچھا کہ ہمیں بتائیں آپ سے اسحاق بن ابراہیم نے کیا کہا اور آپ نے اسے کیا جواب دیا تھا؟ تو عفان کہنے لگے : اے ابو زکریا میں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو مایوس نہیں کیا ۔ انہوں نے پوچھا : بتائیں ہوا کیا تھا؟ کہنے لگے : مجھے اسحاق بن ابراہیم نے بلایا اور مامون نے جو خط اسے بھیجا تھا وہ پڑھا، اس میں لکھا تھا کہ عفان کو آزماؤ، اسے بلا کر کہو کہ قرآن مجید کے متعلق فلاں فلاں بات کہے ۔ اگر کہہ دے تو جس حالت میں ہے اسے چھوڑ دو. لیکن اگر میری لکھی ہوئی بات کو ماننے سے انکار کر دے تو اسے جو سرکاری خرچہ ملتا ہے وہ بند کر دو۔ (ان دنوں انہیں ہر مہینے مامون کی طرف سے پانچ سو درہم ملا کرتے تھے ۔) عفان کہتے ہیں : خط کا متن سنا کر اسحاق بن ابراہیم نے مجھ سے پوچھا : اب بتاؤ! تم کیا کہتے ہو؟ میں نے سورہ اخلاص مکمل پڑھ کر اس سے پوچھا: کیا یہ مخلوق ہے؟ اس پر اسحاق کہنے لگا : اے شیخ! امیر المومنین نے کہا ہے کہ اگر آپ ان کی بات نہیں مانو گے تو آپ کا خرچ بند کر دیا جائے گا، لہذا اگر امیر المومنین نے آپ کا خرچ بند کر دیا تو ہماری طرف سے بھی بند سمجھیں۔ عفان کہتے ہیں میں نے اسے کہا اللہ تعالی فرماتے ہیں :
﴿وفِي السَّماءِ رِزْقُكُمْ وما تُوعَدُونَ﴾.
’’اور تمہارا رزق اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے۔‘‘ (الذاريات : ٢٢)
یہ سن کر وہ خاموش ہو گیا اور میں وہاں سے نکلا آیا۔
حنبل کہتے ہیں: یہ بات سن کر امام احمد، یحیی بن معین اور وہاں موجود ہمارے تمام ساتھیوں کو بے حد خوشی ہوئی۔ (تاریخ بغداد للخطیب : ١٢/ ٢٦٦، مناقب الإمام أحمد لابن الجوزي : ٥٣١، وسنده صحیح)
⇚ابراہیم بن الحسين بن دیزل بیان کرتے ہیں، جب عفان رحمہ اللہ کو خلق قرآن کی آزمائش کے متعلق بلایا گیا تو میں ان کے گدھے کی لگام تھامے ہوئے تھا، جب (سربراہِ پولیس کے پاس) پہنچے تو ان پر قرآن مجید کے مخلوق ہونے کا قول پیش کیا گیا، آپ نے اسے ماننے سے انکار کر دیا، کہا گیا کہ آپ کا سرکاری خرچ بن کر دیا جائے گا – اس وقت انہیں ہر مہینے ایک ہزار درہم دیا جاتا تھا – آپ نے یہ آیت تلاوت کی :
﴿وفِي السَّماءِ رِزْقُكُمْ وما تُوعَدُونَ﴾.
’’اور تمہارا رزق اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے۔‘‘ (الذاريات : ٢٢)
جب واپس پلٹے تو ان کی بیویوں سمیت گھر میں موجود چالیس کے قریب افراد تھے سب نے انہیں اس فیصلے پر ملامت کی، اسی دوران کسی نے ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، ایک آدمی اندر آیا جو گھی فروش یا تیل فروش دکھائی دیتا تھا، اس نے ایک ہزار درہم کی تھیلی انہیں تھمائی اور کہا : جس طرح آپ نے دین کو مضبوط کیا، اللہ تعالی آپ کو ثابت رکھے ۔ اب ہر ماہ یہ خرچہ آپ کے پاس آ جایا کرے گا ۔
(تاریخ بغداد للخطیب : ١٢/ ٢٦٧ وسنده حسن)
حافظ محمد طاھر