اہلُ السنہ والجماعہ کی حدیث

✿۔ صفوان بن محرز مازنی کہتے ہیں :

بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا آخِذٌ بِيَدِهِ إِذْ عَرَضَ رَجُلٌ فَقَالَ كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ فِي النَّجْوَى فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ يُدْنِي الْمُؤْمِنَ فَيَضَعُ عَلَيْهِ كَنَفَهُ وَيَسْتُرُهُ فَيَقُولُ أَتَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا أَتَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا فَيَقُولُ نَعَمْ أَيْ رَبِّ حَتَّى إِذَا قَرَّرَهُ بِذُنُوبِهِ وَرَأَى فِي نَفْسِهِ أَنَّهُ هَلَكَ قَالَ سَتَرْتُهَا عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ فَيُعْطَى كِتَابَ حَسَنَاتِهِ وَأَمَّا الْكَافِرُ وَالْمُنَافِقُونَ فَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ.

’’میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے جا رہا تھا۔ کہ ایک شخص سامنے آیا اور پوچھا رسول کریم ﷺ سے آپ نے (قیامت میں اللہ اور بندے کے درمیان ہونے والی) سرگوشی کے بارے میں کیا سنا ہے؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ اللہ تعالی مومن کو اپنے نزدیک بلا لیں گے اور اس پر اپنا پردہ ڈال کر اسے چھپا لیں گے ۔ پھر اللہ تعالی اس سے فرمائیں گے، کیا تجھ کو فلاں گناہ یاد ہے؟ کیا فلاں گناہ کو یاد ہے؟ وہ مومن کہے گا : جی اے میرے پروردگار۔ آخر جب وہ اپنے گناہوں کا اقرار کر لے گا اور اسے یقین آجائے گا کہ اب تو وہ ہلاک ہوا تو اللہ تعالی فرمائیں گے کہ میں نے دنیا میں تیرے گناہوں پر پردہ ڈالا۔ اور آج بھی میں تیری مغفرت کرتا ہوں، چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی، لیکن کَـ-ـافر اور منافق کے متعلق، ان کے خلاف گواہ کہیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا تھا۔خبر دار ہو جاؤ! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو گی۔‘‘ (صحیح بخاری : ٢٤٤١، صحیح مسلم : ٢٧٦٨)
⇚اس حدیث کے متعلق امام ابو جعفر النحاس (٣٣٨هـ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

هُوَ مِن أحادِيثِ أهْلِ السُّنَّةِ والجَماعَةِ.

’’یہ اہل السنہ والجماعہ کی احادیث میں سے ہے۔‘‘ (الناسخ و المنسوخ، ص : ٢٧٦)
⇚امام ابن ماجہ (٢٧٣هـ) رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں عنوان قائم کیا ہے :
بابٌ فِيما أنْكَرَتِ الجَهْمِيَّةُ.
’’جن چیزوں کا جہمیہ نے انکار کیا ہے ان کا بیان‘‘ (سنن ابن ماجہ قبل ح: ١٧٧)
⇚اس حدیث سے اہل السنہ کے کئی ایک عقائد ثابت ہوتے ہیں، مثلا؛
١) اللہ تعالی مومن کو اپنے قریب کریں گے، اس میں اُن گمراہ فرقوں کا رد ہے جو اللہ تعالی کو لامکاں مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کسی جگہ نہیں ۔
٢) اس میں اللہ تعالی کی صفتِ کلام کا ثبوت ہے اور یہ کہ کلام اللہ تعالی کی صفات فعلیہ میں سے ہے، اللہ تعالی جب اور جیسے چاہتے ہیں کلام فرماتے ہیں ۔
٣) اس سے کلامِ نفسی کا عقیدہ بھی باطل ہوتا ہے کیوں کہ اللہ تعالی کی اپنے بندے سے باہمی کلام، بصورتِ مکالمہ ہو گی، جسے بندہ آواز کے ساتھ سنے گا اور پھر اس پر جواب دے گا۔
٤) اس میں ان لوگوں کا بھی رد ہے، جو کہتے ہیں کہ مرتکبینِ کبیرہ اَبدی جہنمی ہیں، جبکہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ گناہ گار (یعنی اہلِ کبائر بھی) تحت المشیئہ ہیں، اللہ تعالی چاہیں گے تو انہیں معاف کر دیں گے ۔
٥) یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمیشہ رحمتِ الہی سے دور رہنے والے صرف کـ-ـفار و منافقین ہیں وہی ابدی جہنمی ہیں، اہلِ اسلام بالآخر جنت میں ضرور داخل ہوں گے ۔
وغیرہ وغیرہ ۔
و اللہ اعلم بالصواب ۔

(حافظ محمد طاھر)

یہ بھی پڑھیں: ملتزم؛ بیت اللہ سے چمٹ کر دعا کرنا