روزِ اول سے ہی شرارِ بولہبی چراغِ مصطفوی سے ستیزہ کار رہا ہے…دیگر امتیں اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کے جانے کے بعد اپنی شریعتوں کا کما حقہ تحفظ نہ کرسکیں، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ان کی دینی تعلیمات مکمل طور پر محفوظ نہ رہ سکیں…بسا اوقات تو انبیاء کرام علیہم السلام کے پیروکاروں کے سامنے دین و شریعت کو بدلا جاتا تھا اور وہ بیچارے دل مسوس کے رہ جاتے…یہ افتخار امتِ محمدیہ کے حصے میں ہی آیا کہ جب کبھی بھی بادہ کش محتسب سے خائف ہوئے تو علمائے دعوت و عزیمت کی ایک جماعت ميدان کارزار میں طائفہ منصورہ کی صورت جلوہ گر رہی :

جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اْدھر نکلے ، اْدھر ڈوبے اِدھر نکلے

علمائے حق نے باطل پرستوں کی باطل پرستی اور فتنہ پردازوں کی فتنہ پردازی کا کس کس طرح سدِ باب کیا یہ ایک طویل موضوع ہے جو ان گنت کتب میں موجود ہے…فتنہ گروں نے ایک فتنہ کتب کی شکل میں بھی پیش کیا…علمائے کرام نے بغیر خوف و خطر اور کسی بھی قسم کے جھوٹے پروپیگنڈے کی پرواہ کیے بغیر ان کتب کی نہ صرف قلعی کھولی بلکہ اپنی کتب، فتاویٰ جات اور نجی محفلوں میں عوام کو ان کتب کے مطالعے سے سختی سے روکا تاکہ بھولی بھالی عوام علم کے حصول کے چکر میں دین و ایمان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے. ذیل میں کچھ کتابوں کے متعلق معلومات فراہم کی جاتی ہیں جن سے علماء کرام نے سختی سے منع کیا ہے …یہ تمام معلومات اور کتابوں کے نام علامہ مشہور حسن سلمان حفظہ اللہ کی کتاب
” کتب حذر منها العلماء ” سے ماخوذ ہیں.
1 : رسائل اخوان الصفا.
قريباً چوتھی صدی ہجری میں اس کتاب کا ترجمہ یونانی سے عربی زبان میں کیا گیا تھا. اس کتاب میں کفر و زنديقت کی ترویج کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی لکھا گیا کہ نبوت ایک کسبی منصب ہے جس کا حصول دل کی صفائی اور عملی ریاضت سے ممکن ہے. یہ اور اس جیسے دیگر واہیات نظریات کی بنا پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس کتاب کی بابت رقمطراز ہیں :
” وفيه من الكفر والجهل شيء كثير” يعني اس کتاب میں کفر و جہالت پر مبنی باتیں بہت زیادہ ہیں.
2 : اثر الحديث الشريف في اختلاف الفقهاء، مؤلف محمد عوامہ.
اس کتاب کے زہریلے اثرات کے متعلق علامہ البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں : بعض مسلمان نوجوانوں نے مجھے یہ چھوٹا سا کتابچہ بطورِ تحفہ دیا ہے جو کہ ایک متعصب ترین، حاسد اور حاقد حنفي کی تألیف ہے جو ان سلفی حضرات کے رد میں لکھی گئی ہے جو کتاب و سنت کی طرف دعوت دیتے ہیں…اس طرح کے جو متعصب لوگ ہوتے ہیں انہیں نہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے نہ لوگوں کی حیا ہوتی ہے.
3 : کتاب التعليم، مؤلف : مسعود بن شیبۃ الحنفي.
اس کتاب کے بارے میں حافظ عراقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: نامعلوم شخص ہے، کچھ پتا نہیں کہ اس کے اساتذہ کون ہیں. اس نے اس کتاب میں امام مالک اور امام شافعی پر نہایت گھٹیا بہتان تراشے ہیں بلکہ اس کتاب میں انبیاء کرام کی توہین بھی کی گئی ہے.
4 : الدرر السنية في الرد على الوهابية، مؤلف : احمد زيني دحلان.
اس کتاب کا مؤلف امام الدعوۃ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے متعلق ياوہ گوئی کرتے ہوئے لکھتا ہے : ظاہر یہی ہو رہا ہے کہ محمد بن عبد الوہاب نامي یہ شخص نبوت کا دعویٰ کرنا چاہتا تھا مگر حالات کے پیش نظر اسے اس بات کی جرات نہ ہوسکی.
برصغیر کے معروف اہلِ حدیث عالم دین محدث بشیر احمد سہسوانی رحمہ اللہ نے اس کا تفصیلی رد ” صيانۃ الإنسان عن وسوسۃ الشيخ دحلان سے لکھا اور اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں : رسالته الباطلة الساقطة الدنيئة. یعنی یہ کتابچہ باطل، علمی اعتبار سے ساقط اور گھٹیا ہے.
5 : کتاب في العشق، مؤلف : مغلطائی بن قلیج الحنفي.
علامہ علائی رحمہ اللہ نے اس کتاب کو بازار سے خرید کر پڑھا تو دیکھا اس میں ام المؤمنين سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت نامناسب الفاظ استعمال کیے گئے ہیں لہٰذا موفق الحنبلي کے ذریعے نہ صرف مؤلف کو تعزیراً پٹوایا بلکہ جیل یاترا بھی کرائی اور باقاعدہ توبہ کے بعد جیل سے رہا کیا گیا.
6 : تاریخ التمدن الإسلامي، مؤلف : جرجی زیدان.
اس کتاب کے بارے میں علامہ شبلی نعمانی رقمطراز ہیں:
یہ دنیا بھی عجائب کدہ ہے، عجائباتِ زمانہ تو دیکھئے کہ جرجی زیدان نامی ایک صاحب نے تاریخ تمدنِ اسلامی نامی ایک کتاب لکھی ہے جو کہ لفظی تحریفات، باطل کی ترویج، نقل کرنے میں خیانت پر مبنی ہے اور اس میں حد درجہ جان بوجھ کر جھوٹ بولا گیا ہے.
خوانندگان محترم! یہ محض چھ اقتباسات ہیں جو مذکورہ کتاب سے دیے گئے ہیں…ان کو ذکر کرنے کا مقصد یہی واضح کرنا ہے کہ عوام و خواص کے عقیدہ و منہج اور علم و عمل کے لیے مضر کتابوں کے مطالعے سے انہیں روکنا علمائے حق اور ان کے جانشینوں کا فریضہ ہے جس کی انجام دہی میں وہ کسی صورت پیچھے نہیں رہتے.

 حافظ عبد العزيز آزاد