علماء نے اب تک کیا کیا ہے؟ یا علماء کیا کر رہے ہیں؟ اس قسم کے سوالات آئے روز کسی نہ کسی پیرائے میں سامنے آتے ہی رہتے ہیں۔
اس سوال کے دو پہلو ہیں. اگر تو کوئی بطور اعتراض یہ سوال اٹھائے، تو ہم بھی اس سے یہی الزامی سوال پوچھ سکتے ہیں کہ آپ نے خود کیا کیا ہے؟ جو اس نے کیا ہے، علماء کی خدمات یقینا اس سے زیادہ ہی ہوں گی.
مولوی اکیلا ہو کر دس دس بندوں کا کام کر رہا ہے، آپ کیا کر رہے ہیں؟
آپ آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کرکے ایک منٹ بھی اوپر ہو تو اوور ٹائم کا مطالبہ کرتے ہیں، جبکہ مولانا صاحب چوبیس گھنٹے کے لیے دستیاب ہو کر بھی فی سبیل اللہ کی مد سے پیٹ پالتے ہیں۔
آپ نے مولانا صاحب کو تو یہ کہہ دیا کہ ’دنیا کہاں پہنچ گئی اور مولوی کی دوڑ مسجد تک ہے‘، لیکن خود آپ بحیثیت مسلمان کوئی ذمہ داری محسوس نہیں کرتے؟ کبھی ایک دن چوبیس گھنٹے کے لیے مولوی کے ساتھ مسجد میں دوڑ دھوپ کرکے تو دیکھیں، اندازہ ہوگا کہ مولانا جہاں بھی ہوں، نماز کے لیے دوڑ کر مسجد میں نہ آئیں، تو معاشرے میں کس قدر خلا پیدا ہوگا!!
خود آپ چار لفظ انگریزی اور دو ٹیکنیکل سکلز سیکھ کر کافروں کی نوکری پر لگ جانا اپنے کیریئر کی معراج سمجھتے ہیں، لیکن جدید وسائل و مسائل کا حل مولانا کو کرنا چاہیے، جن کے ہاتھ میں موبائل بھی آپ کو برا لگتا ہے…!!

یہ اس سوال کا ایک منفی رخ تھا، جس کے الزامی جواب کے طور پر اس قسم کی درجنوں باتیں کی جاسکتی ہیں…!!

لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بذات خود علمائے کرام اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں، کہ ہم اپنی ذمہ داریاں ادا کر پا رہے ہیں؟ یا معاشرے کو درپیش چیلنجز کے لحاظ سے ہم دعوت و دفاع دین کا کام کر رہے ہیں، تو اس کے جواب میں مجموعی ماحول کو دیکھ کر اپنے کام کا جائزہ اور اس میں بہتری لانے اور کمیاں کوتاہیاں دور کرنے کی بہت ساری گنجائش ہے۔
یہی آخری اسلوب تعمیری بھی ہے اور مثبت بھی اور یہ جماعت علماء اور معاشرے کے لیے بھی فائدہ مند ہے.
جبکہ پہلا انداز منفی ہے، یہ معاندین و معترضین کا منہ بند کرنے کے لیے بہترین ہے، ( ظاہر ہے جس کا مقصد اعتراض برائے اعتراض ہے، اس کو تحقیقی اور مثبت جواب سے زیادہ منہ توڑ اور مسکت جواب کی ضرورت ہوتی ہے) لیکن یاد رکھیں اس الزامی جواب میں مسئلے کا حل موجود نہیں ہے، آپ خود اپنے ضمیر اور اپنے مخلص احباب کو اس قسم کی مناظرانہ گفتگو سے مطمئن نہیں کر پائیں گے۔

ایک عام بندے کا یہ مسئلہ نہیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں یا کیا نہیں کر رہے، یہ بالکل محدود طبقے کے مسائل ہیں۔
عام لوگ بھیڑ چال کا حصہ بن کر نامعلوم منزل کی طرف گامزن ہیں، وہ ریوڑ کی طرح آنکھیں بند کرکے چلتے رہتے ہیں، اگر اللہ آپ کو توفیق دے گا، تو آپ ان تک پہنچنے کی کوشش اور تڑپ میں رہیں گے۔

اکثریت عوام بحث و مباحثے والی نہیں ہے، وہ ساری علمی و تحقیقی دنیا سے الگ تھلگ ہوکر سود کو حلال سمجھے بیٹھے ہیں، وہ تین تین طلاقیں دے کر بھی اکٹھے رہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، ان کے نزدیک رشوت خوری حرام ہوا کرتی تھی، لیکن اب وہ سلسلہ ختم ہے، کیونکہ اب تو کوئی کام بھی ’مٹھائی‘ اور ’تحفے تحائف‘ کے بغیر ہونا ممکن ہی نہیں، قسطوں کے کاروبار سے متعلقہ پوری زندگی انہیں کسی نے نہیں بتایا کہ یہ جائز ہوتا یا ناجائز. تھوک کے حساب سے گالیاں نکالتے ہیں، کیونکہ انہوں نے یہ سمجھا ہوا ہے کہ مذاق ہی مذاق میں گالیاں نکالنا کون سا گناہ کا کام ہے، دین ان کے نزدیک ایک محدود طبقے کا مسئلہ ہے، جبکہ عام آدمی کو اللہ نے خود سمجھ بوجھ دی ہوئی ہے، جو اس کی سمجھ میں آتا ہے، اسے کرنا چاہیے.. شادی بیاہ، غمی خوشی کے موقعوں پر مولوی بننے کی کوئی ضرورت نہیں..!! یہی ان کا دین ہے، یہی اس طبقے کا مذہب ہے…!!
اگر ان لوگوں تک دعوت پہنچانا ہم اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں، تو ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے!! اور یہ صرف دعوتی فیلڈ ہے۔
علم و تحقیق کے لیے جدید ٹولز کو دنیا جس انداز سے استعمال کر رہی ہے، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں، تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ اس قسم کی سوچ اگر سب لوگوں کی ہوتی تو ہم مولویوں کے لیے کوئی ایپ دستیاب ہوتی نہ شاملہ جیسا کوئی سافٹ ویئر اور نہ گوگل ہمارے کسی کام کا ہوتا…!!
آئے روز دینی تعلیم اور اس سے متعلق نت نئے ٹولز کا آنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایک ایسی جماعت موجود ہے، جو ہر وقت معاشرے کو نفع پہنچانے اور کچھ مفید لانے کی کوشش میں رہتی ہے… سب ردِ عمل میں مخاصمانہ اور مناظرانہ ذہنیت بنا کر بیٹھ جائیں، تو ظاہر ہے تعمیر و ترقی کا سفر وہیں پر رک جائے گا۔

میری اس تحریر کے اصل مخاطب بھی یہی لوگ ہیں، جو اس سوال کے مثبت رخ سے واقف ہیں، انہیں بحث ومباحثے میں الجھنے کی بجائے، اس رخ پر آگے بڑھ کر کام کرنا چاہیے۔ کیونکہ صلاحیت بھی رزق کی طرح ہوتی ہیں، کسی کو اللہ نے کچھ دیا ہے، کسی کو کچھ دیا ہے۔ اللہ نے آپ کو جو صلاحیت دی ہے، اس کی قدر کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور معاشرے کے لیے کچھ کرنے کی کوشش کریں…!

کسی نے کیا کیا ہے؟ یا تم نے کیا کیا ہے؟ یہ سوالات اٹھا لینا بہت آسان ہیں، لیکن خود میں نے کیا کیا ہے؟ اس پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے، اللہ تعالی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔

#خیال_خاطر