سوال

ایک بچی جس کی عمر 6 سال ہے بائے برتھ اس کے دل  کا ایشو تھا۔  اب اس کی صورت حال یہ ہےکہ اس کے لنگز بالکل کام نہیں کر رہے اور اسے وینٹی لیٹر پر رکھا ہوا ہے، ڈاکٹرز نے اسے جواب دے دیا ہےان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی دوائی اس پر اثر نہیں کر رہی اور اگراسے وینٹی لیٹر سے اتار دیا جائے یا اس کی آکسیجن کم کر دی جائے تو 30 منٹ کے اندر اندر یہ دنیا سے رخصت ہو جائے  گی۔لیکن پہلے انہوں نے کہا تھا کہ اس کا برین کام کرنا چھوڑ دے گا لیکن اس کا برین بالکل صحیح کام کر رہا ہے وہ پہنچانتی، دیکھتی اور بات بھی کرتی ہےلیکن ایک بات ہے کہ اس کا سانس بالکل مصنوعی ہے تو اس حوالے سے ہمیں کیا کرنا چاہیے شرعی طور پر رہنمائی فرمادیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اس لحاظ سے زندگی کی دو اقسام ہیں:

1:قدرتی زندگی: قدرتی زندگی سے مراد جیسےتمام انسان پرسکون زندگی گزار رہے ہیں ان کے  تمام اعضاء جو اللہ نے بنائے ہیں وہ سارے اعضاء صحیح طرح سے کام کر رہے ہیں انہیں کسی مصنوعی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔

2:مصنوعی زندگی: مصنوعی زندگی  سے مراد جیسے ایک انسان جس کے تمام اعضاء صحیح سے کام نہیں کر رہے ان اعضاء کو چلانے کے لیے مصنوعی چیزوں کی ضرورت ہے۔ جیسے  کسی انسان کا سانس خراب ہوتا ہے تواسے  مصنوعی سانس دینا پڑتا ہے۔ وقتی طور پر کسی چيز کا عارضی بندوبست کرنے میں حرج نہیں ہے، لیکن مسلسل مصنوعی زندگی کے لیے کوشش کرنا شریعت کا مطلوب و مقصود نہیں ہے۔

اس بچی کی زندگی مصنوعی زندگی ہے،اور عارضی طور پر اس کے حواس کو قائم رکھاگیا ہے۔ جیسےاس کا دیکھنا،پہچاننا، اور بولنا اس کے علاوہ باقی حواس  کام نہیں کر رہے ہو سکتا ہے کہ آہستہ آہستہ یہ بھی کام کرنا چھوڑ دیں۔ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے، نہ یہ کھاسکتی ہے، نہ  پی سکتی ہےاور نہ آپ کی بات سن کر صحیح طرح سے جواب دےسکتی ہے۔ یہ جو کچھ حواس کام کر رہے ہیں یہ مصنوعی سانس کی وجہ سے کر رہے ہیں۔

لیکن پھر بھی چونکہ انسانی جان کا تحفظ مقدم ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

“وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا”. [المائدہ:32]

’اور جس نے کسی ایک انسان  کی جان بچائی گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی ‘۔

لہذا ڈاکٹروں سے مشاورت کریں  اگر وہ کہیں کہ اس کے تین   کے علاوہ دیگر حواس بھی  کام کرنا شروع کرنے کی امید ہے تو پھر اسے وینٹی  لیٹر سے  نہیں اتارنا چاہیے۔ اور اگر وہ کہیں کہ اس کے یہ تین حواس بھی کام کرنا چھوڑ جائیں گے تو پھر اسے وینٹی لیٹر سے اتار دیا جائے، اور تکلیف میں نہ رکھا جائے،   مصنوعی تنفس یا وینٹی لیٹر کا سہارا اس کے لیے بالکل کار گر نہیں ہے۔ایسی صورت میں اس کے لیے دعا  ہی کی جاسکتی ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ نےفرما یا کہ اگر کوئی اپنے لیے زندگی اور موت کے حوالے سے   دعا کرنا چاہتا ہے تو یہ کہے:

“اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الوَفَاةُ خَيْرًا لِي”. [صحیح البخاری:5671]

’اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہو تو مجھے زندہ رکھ اور جب میری وفات میرے لیے بہتر ہو تو مجھے فوت کرلے‘۔

لیکن محض سانس جاری رکھنے کے لیے وینٹی لیٹر پر ڈال کر مریض کو اذیت سے دوچار کرنا شریعت کا مطلوب نہیں ہے، اگر مریض یا اُس کے قریبی رشتے دار یا ڈاکٹر ایسا کرنا چاہیں تو یہ اُن کی صوابدید ہے۔ یہ لمحات انتہائی کرب ناک ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو ایسے احوال سے عافیت اور امان میں رکھے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ