سوال

کیا والدین کی زندگی میں اولاد اگر مر جائے تو اُس کو جائیداد میں سے حصہ ملے گا کہ نہیں؟ دلیل سے واضح کر دیں

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

 وراثت کے عموما دو سبب ہوتے ہیں، جو کہ درجِ ذیل ہیں:
نسب: یعنی خونی رشتہ دار آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں۔
نکاح: یعنی میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں۔
عام طور پر یہی دو امور وراثت کا سبب بنتے ہیں۔
ایک تیسرا سبب ولاء بھی ہے، یعنی اگر کسی نے کسی غلام کو آزاد کیا ہوتا تھا تو وہ اس کا وارث بنتا تھا۔
 اسی طرح وراثت کی تین شرائط بھی ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:
1۔ مُوَرِّث کی وفات
2۔ جس نے وارث بننا ہے، وہ زندہ ہو۔
3۔ وراثت میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
جیسا کہ اگر کوئی وارث اپنے مورِّث کو قتل کردے، تو اسے وراثت سے کوئی حصہ نہیں ملے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

’لَا يَرِثُ الْقَاتِلُ شَيْئًا‘. [سنن ابي داود:4564، سنن الترمذي:2109]

’ قاتل کو وارثت میں سے کچھ نہیں ملتا‘۔
اسی طرح اختلافِ دین بھی وراثت میں رکاوٹ ہوتا ہے۔ یعنی دونوں میں سے کوئی ایک کافر ہو، تو تب بھی وہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

“لاَ يَرِثُ المُسْلِمُ الكَافِرَ وَلاَ الكَافِرُ المُسْلِمَ”. [صحيح البخاري :6764، صحيح مسلم:1614]

’مسلمان کافر کا وارث نہیں بن سکتا، اور نہ کافر مسلمان کا‘۔
صورتِ مسؤلہ میں ایسی اولاد جو اپنے باپ کی زندگی میں فوت ہوگئی، وہ وارث نہیں ہوگی، کیونکہ اس میں اوپر بیان کردہ دوسری شرط مفقود ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ