(1) واقعہ فیل تاریخ عرب کا عظیم ترین حادثہ ہے۔ اسی عظیم الشان واقعہ سے متصل یگانہ شان و عظمت کی حامل ہستی جناب رسالت مآب ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔

(2) واقعہ فیل میں باری تعالیٰ کی قدرت و طاقت کا اظہار بھی تھا ۔ کعبۃ اللہ کی قدر و منزلت اور حرمت و تقدس کا اعلان بھی تھا۔ یہ واقعہ بتوں کی بے حیثیتی اور بے بسی کی شہادت بھی تھا ۔ اس سے خاندان نبوت اور آپ کے دادا جان جناب عبدالمطلب کے شرف و منزلت میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا۔

(3) سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں سرتاجِ رسل ﷺ کی شان و عظمت کا اقرار واظہار بھی تھا۔ واقعہ فیل رسول اللہ ﷺ کی خیر و برکت کی تمہید تھی۔ مستقبل میں ولادت نبوی کی صورت میں انسانیت پر نزول رحمت و کرم کی نوید سعید بھی تھی۔

(4) ابرہہ اگر اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہو جاتا۔ ہو سکتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت و بعثت پر اس حوالے سے انگشت نمائی کی جاتی۔ آپ کی ولادت طیبہ کو باعث نحوست گردانہ جاتا۔ کعبہ کی حفاظت فرما کر باری تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی شان و ناموس کا تحفظ فرمایا۔

(4) رسول مقبول ﷺ پر سورت فیل کا نزول ہوا۔ آپ نے لوگوں کو اس کی تلاوت سنائی۔ کسی ایک کافر نے بھی اس عظیم سانحہ کا انکار نہیں کیا، نہ ہی کسی نے کوئی اعتراض کیا۔ کیونکہ یہ واقعہ اہل عرب کے ہاں مشہور تھا۔

,(5) بعض روایات میں تو یہاں تک مذکور ہے کہ لشکر ابرہہ میں شامل چند ایک افراد بطور عبرت ولادت نبوی کے بعد بھی طویل عمر زندہ رہے ۔

(6) شدیدبڑھاپے کی وجہ سے وہ انتہائی زیادہ ضعیف و لاغر ہو گئے۔ وہ زمین پر چوتٹر کے بل گھسٹ کر چلتے تھے۔ مکہ میں رسول اللہ ﷺ کی رفیقہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی انھیں بھیک مانگتے دیکھا۔ (مسند البزار: 300، مجمع الزوائد: 5704)

(7) واقعہ فیل نبوی ارہاصات اور تمہیدات میں نمایاں ترین اہمیت کا حامل ہے۔ آپ کی ولادت و رسالت سے اس کا گہرا تعلق ہے۔آپ پر فیل نام کی ایک سورت مبارکہ کا نزول ہوا.

(حافظ محمد فیاض الیاس الأثری)