مرزا جہلمی صاحب کا پہلی بار نام اس وقت سنا جب انھوں نے محمد بن قاسم رحمہ اللہ کے حملۂ سندھ کے بارے یہ ”تحقیق انیق“ پیش کہ وہ سادات کی تلاش میں یہاں آئے! اس کے علاوہ باقاعدہ ان کو سننے کا کبھی موقع نہیں ملا اور جب کبھی اتفاقا سامنے آ بھی گئے تو ایک دو منٹ سے زائد ان کو سننے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ان کا لہجہ طبیعت پر گراں گزرتا، بہت بار سننے کی کوشش کی لیکن جلد ہی صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔ پتہ نہیں لوگ کیسے سن لیتے ہیں!

پچھلے دنوں وہ کسی پوڈ کاسٹ میں مہمان تھے، ہمت مجتمع کرکے قریب دو گھنٹے کی پوڈ کاسٹ سنی، مرزا کی شخصیت اور ان کے کام کے بارے جو کچھ مجھے سمجھ آیا وہ یہ ہے:

1.  مرزا صاحب بلاشبہ قوت گفتار سے مالامال ہیں، اور ان کی یہی صلاحیت شاید ان کی شہرت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

2. موصوف شخصیات (جسے وہ بابے کہتا) کے بجائے تحریر و کتاب کو اہمیت دیتے ہیں مگر انھیں کون سمجھائے کہ رب العالمین نے جہاں کتب و صحائف کو نازل فرمایا تو ساتھ میں پیغمبر بھی نازل فرمائے۔ اور سورہ فاتحہ میں ”صراط مستقیم“ کا مصداق انبیاء، صالحین اور شہداء کا راستہ ہے جس سے ہمیں شخصیات کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ اور مرزا صاحب نے احادیث کی جو کتابیں سجائے رکھیں ہیں وہ بھی تو بابوں کی لکھی ہوئی ہیں!!

3. اپنے بارے خوش فہمی میں مبتلا ہیں اور خود اعتمادی زائد از ضرورت ہے اس لیے دنیا جہاں کے ہر سوال کا الٹا سیدھا جواب دے دیتے ہیں۔

4. ان کا مطالعہ انتہائی سطحی ہے، اور مخصوص موضوعات تک محدود ہے،  لیکن پھر بھی بعض چیزوں میں خوبی کے ساتھ اسلام کا دفاع کرتے ہیں۔

5. مرزا صاحب کی توپ کا رخ دشمن کے بجائے اپنوں کی طرف زیادہ ہے، بلکہ بعض دفعہ وہ روایتی طبقے سے اختلاف کرتے کرتے غیر مسلموں بلکہ اسلام دشمنوں کے ہمنوا بنتے ہوئے نظر آتے ہیں..!

6۔ کہنے کو وہ فرقہ پرستی کے خاتمے کی بات کرتے ہیں مگر کام کا جو انداز اپنایا ہے اس سے بجائے فائدہ کے الٹا نقصان ہو رہا ہے۔ مشاجرات صحابہ جیسے نازک موضوع پر انتہائی بے احتیاطی سے رائے زنی کرتے ہیں۔ نعرہ فرقہ واریت اور اختلاف کے خاتمے کا ہو، اور موضوع ہر وقت صحابہ کرام کے مابین اختلافی امور ہوں… یہ سوائے دھوکہ دہی اور کچھ نہیں..!

7۔ ان کے چاہنے والوں میں اکثریت ان کی ہے جو روایت سے باغی اور علماء سے بدظن ہیں، موجودہ دور میں نوجوانوں کو علماء اور روایت سے متنفر کیا جارہا ہے پھر ایسے نوجوان کسی حد تک دین پر عمل کرنا تو چاہتے ہیں مگر انھیں مولویوں سے زیادہ ڈاکٹرز، پروفیسرز اور انجنیئرز کا دین پسند آتا ہے اور پھر انھیں مارکیٹ میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں۔

8۔ مرزا صاحب کو روایت پسندوں سے سخت چڑ ہے جبکہ سیکولر اور دین بیزار طبقہ کے لیے بانہیں پھیلائے رکھتے ہیں، ملحدین اور دین بیزار لوگ انھیں کی باتوں کے سہارے دین اور اہل دین پر تنقید کرتے ہیں۔

کاش! مرزا جہلمی صاحب جیسے لوگ مسلمانوں کے داخلی مسائل کے بجائے خارجی محاذ پر اپنی توانائی خرچ کرتے، غیر ضروری مباحث کو چھوڑ کر اسلام اور مسلمانوں کو درپیش مغربی تہذیب کے چیلنجز کا مقابلہ کرتے۔

جب بھی باصلاحیت لوگوں کو غلط رخ پر کام کرتے دیکھتا ہوں دل سے دعا نکلتی ہے کہ الہی! انھیں صحیح معنوں میں دین کا خادم بنادے! سو انجنئیر صاحب کے لیے بھی یہ دعا کرتے ہیں۔

(یہ تحریر ایک عالم دین مولانا ذو الفقار فانی صاحب کی ہے، لیکن اس میں کچھ  حک و اضافہ کے ساتھ اسے یہاں نشر کیا گیا ہے۔)