سوال
ایک فوت شدہ نے اپنے پیچھے جو ترکہ چھوڑا ہے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
1-منقولہ اور غیر منقولہ املاک
2_ ایسا پیسہ جس کی کاروبار میں کھپت جاری ہے ۔اور یہ ایک کمپنی میں چل رہا ہے ۔
اس ورثے کی تقسیم تین بیٹے ، تین بیٹیاں اور بیوہ میں کیسے ہو گی؟
اگر کوئی وارث یہ کہتا ہے ،کہ میں اس کاروبارکو چلاتا ہوں، اس میں موجود ہر طرح کے حصے کو دیگر ورثاء کو دیتا ہوں،لیکن چلتا کاروبار میں استعمال کروں گا۔
آیا جو اس کمپنی یا کاروبار کے نام کو استعمال کرے گا، اس کےاستعمال کرنے کا دیگر ورثاء کو کچھ ادا کرے گا یا اس کی ضرورت نہیں؟ واضح رہے کہ دو بیٹے باپ کی زندگی میں ہی کاروبار میں شاملِ تھے لیکن باپ نے کاروبار سے ان کو کچھ بھی گفٹ نہیں کیا تھا، بلکہ باپ بطور اجرت ان کو اس کاروبار سے لینے کی اجازت دے چکا تھا ۔
اور اس کاروبار کو جو وارث بھی سنبھالے گا اس کو چلتا چلایا کاروبار کے فائدے کے ساتھ ساتھ اپنے پاس سے بھی اخراجات کرنے لازمی ہوں گے۔
ایک اور بات کہ تقسیم کسی وجہ سے دیر کا شکار ہو تو اس کے اندر گناہ ہے یا کسی وجہ سے دیر کی اجازت ہے ؟شریعت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں، جزاکم اللہ خیراً
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
- بیوی کا آٹھواں حصہ ہوگا۔جیسا کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ[ النساء:12]
’اگر تمہاری اولاد ہوتو تمہاری بیویوں کیلئے ترکے کا آٹھواں حصہ ہوگا‘۔
باقی ترکہ اولاد پر تقسیم کردیا جائے گا،اس کے 9 حصے کرلیں، جس میں لڑکے کو لڑکی سے دوگنا ملے گا، جیسا کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ[النساء:11]
’ اللہ تعالی تمیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے، کہ لڑکے کو لڑکی سے دوگنا دیا جائے گا‘۔
اس شرعی طریقہ پر ترکہ تقسیم کیا جائے۔
ہر لڑکے کے2حصےتین لڑکوں کے چھ حصے ہونگے، باقی تین بچیں گے ہر لڑکی کوایک ایک حصہ ملے گا۔
- سوال میں مذکور کاروبار اور کمپنی کا اب تک جو نام، ساکھ اور اہمیت بن چکی ہوئی ہے، اس کی اس گُڈوِل کو مارکیٹ ویلیو کے حساب سے معلوم کر لیں۔ یعنی اگر کوئی اس کمپنی کو خرید و فروخت کرنا چاہے، تو کیا قیمت ہوگی؟ اس قیمت کو بھی بطور ترکہ شمار کیا جائے، اور ورثا میں ان کے حصوں کے حساب سے تقسیم کردیا جائے۔ اگر کوئی ایک وارث سارا کاروبار لینا اور کمپنی سنبھالنا چاہتا ہے، تو حساب کرکے دیگر وراثت سے اس قدر حصہ کم لے لے ۔
- وراثت اور اس کے احکام اسی لیے ہیں، کہ انسان کے فوت ہونے کے بعد ان احکامات پر عمل کیا جائے، بلاوجہ تاخیر کرنا درست نہیں۔ اور اس تاخیر کے سبب پھر کئی ایک مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ درست طریقہ یہ ہے کہ وراثت میں سے ہر کوئی اپنا حصہ لے ، اور پھر سب ورثا یا جن کا آپس میں اتفاق ہو، مل جل کر کاروبار کرتے رہیں۔
هذا ما عندنا، والله أعلم بالصواب
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ