یہودی فقہاء اپنے ایمان مفصل کو ۱۳ نکات پر مشتمل بتاتے ہیں، جسے وہ ایمان کے ۱۳ اصول کہتے ہیں۔ یہ بنیادی ۱۳ ایمانیات تین وقت کی نمازوں میں بھی روز دہراے جاتے ہیں۔ وہ اصول درج ذیل ہیں ؛
۱: خدا ہر جگہ موجود ہے۔
۲: وہ واحد اور بے مثل ہے۔
۳: اسکی صفات غیر معمولی ہیں۔
۴: وہ اوّل و آخر یعنی ابدی ہے۔
۵: عبادت ،بلا شرکت غیر،صرف اور صرف خدا کی کرنی ہے۔
۶: انبیاء کا ہر ہر لفظ حتمی صداقت ہے۔
۷: موسی کی پیشن گوئیاں حتمی سچ ہیں۔ اور موسی انبیاء میں سے بڑے نبی تھے۔
۸: کتاب اور روایت ( تورات اور تلمود) دونوں خدا کی جانب سے ہیں ۔
۹: اس تورات کے سوا کوئی دوسری تورات نہیں ہے۔
۱۰: خدا انسان کے خیالات اور اعمال دونوں کو جانتا ہے۔
۱۱: خدا عملِ  صالح پر جزا اور عملِ غیر صالح پر سزا دے گا۔
۱۲: موعود بادشاہ ( المسیح ) آے گا۔
۱۳: موت کے بعد انسان کی بعثت ہونی ہے۔
یہودی عقائد میں اور بھی چیزیں شامل ہیں لیکن درج بالا تیرہ نکات محض عقائد نہیں بلکہ قانونا یہودی رہنے کے لئے کم از کم ایمانیات ہیں۔
عہد نامہ عتیق کا مسلسل مطالعہ کرنے والے بھائی جانتے ہونگے کہ شریعت کو چھوڑ کر باقی سب کچھ ان کتب میں انھی مضامین کے گرد گھومتا ہے۔ تاہم تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خلاصہ کسی بھی کتاب میں کسی پیغمبر کا نکالا ہوا نہیں ہے بلکہ صلیبی جنگوں کے بعد جب فلسطین پر یورپ کا قبضہ ہوا تو اس وقت کے ایک بہت بڑے یہودی فقیہی رمبام کا مرتب کردہ ہے۔ یہودیت میں فقیہی رمبام کو اتنا بڑا مقام حاصل ہے کہ انکی مرتب کردہ یہ لسٹ اب یہود کی ایمانِ مفصل کہلاتی ہے۔ اگر یہودی علماء سے سوال کیا جائے کہ اصول نمبر ۱۲ ( موعود مسیح آے گا) تو حضرت سلیمان کی حکومت بکھرنے سے پہلے کی کسی کتاب میں نہیں ملتا پھر آپ اسے عقائد سے اٹھا کر ایمانیات میں کیونکر شامل کرتے ہیں ؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ یوم آخرت ( آخرت ہا یمم) پر ایمان کے ذیل میں قرب قیامت کی وہ تفصیل جو پیغمبروں کی وساطت سے ملی ہو وہ اسی آخرت پر اجمالی ایمان کی تفصیل ہوتی ہے، اس لئے ہم جیسے اجمال پر ایمان رکھتے ہیں ویسے ہی تفصیل پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ کیونکہ اجمال اور تفصیل دونوں کا ماخذ پیغمبر ہی ہیں۔
عبرانی میں “مشیاخ “کا لفظی مطلب مسح کیا ہوا ہے۔ جو قدیم عبرانی روایت میں نظم و نسق سنمبھالنے کے لئے منتخب کردہ بندے کی تاج پوشی نما رسم تھی۔ جب تک یہ نظم و نسق قاضیوں کے ہاتھ میں تھا اسوقت تک یہ رسم انکی تاج پوشی ( اپوائنمنٹ) کے طور پر ہوتی تھی۔ پھر جب سموئیل نبی کی وساطت سے طالوت کو تمام قبائل کے مرکزی نمائندے یعنی بادشاہ کے طور پر چنا گیا تو باوجود اختلاف کے سموئیل نبی نے اسکا حتمی فیصلہ مقدس تیل (زیتون کا تیل اور خوشبو) طالوت کے سر پر انڈھیل کر کردیا تھا۔ انکے بعد داؤد و سلیمان سے لے کر یہود کے آخری بادشاہ تک اسی رسم سے ہی تاج پوشی ہوتی رہی۔ فارس کا بادشاہ ذوالقرنین کیونکہ ایک اہل ایمان بادشاہ تھا اور اس نے مقدس ھیکل کی دوسری مرتبہ تعمیر بھی کی تھی اور اسکی بادشاہت ھیکل کی موجودگی میں فلسطین پر بھی قائم تھی اسلئے اسکی بادشاہت کو بھی بنی اسرائیل کے پیغمبروں نے خدا کی بادشاہت ہی کہا اور اسے بھی بنی اسرائیل کے پیغمبروں نے مشیاخ (خلیفہ) کہہ کر ہی پکارا۔ ذوالقرنین بادشاہ نے فلسطین کا اندرونی نظم و نسق چونکہ ھیکل کے کاھن اعظم کے سپرد کردیا تھا اسلئے کچھ عرصہ تک کاھن اعظم کو مذہبی اتھارٹی کے ساتھ مشیاخ کا درجہ بھی حاصل رہا۔ رومیوں کے قبضے کے بعد پھر سے گورنر نما بادشاہ جب مقرر ہونے لگا تو پھر سے مشیاخ کا عہدہ اس گورنر نما بادشاہ کو حاصل ہوگیا۔ اسی دوران عیسی ابن مریم علیہ سلام کی پیدائش ہوئی اور اسی دوران ہی دوسری مرتبہ ھیکل 430 سال کھڑا رہنے کے بعد تباہ ہوگیا ( پہلی مرتبہ 420 سال قائم رہا تھا) اور یہودی گزشتہ صدی تک کے لئے دنیا میں بکھیر دیے گئے۔ اس طرح یہ عہدہ پچھلی صدی تک یہود میں مفقود رہا۔ پچھلی صدی سے پھر سے انھیں فلسطین پر حکومت ملی لیکن ھیکل کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ مذہبی عہدہ ھنوز کسی کو حاصل نہیں ہوسکا۔
تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اصول نمبر ۱۲ میں مزکور موعود مشیاخ ( the mashiach) کون ہے؟ اسکی تفصیل یہ ہے کہ سلیمان علیہ سلام کے بعد جب ان کی حکومت دو حصوں میں بکھر گئی اور دونوں ریاستیں ایک دوسرے کی جانی دشمن اور مشرک حکومتوں کی حلیف بن کر ایک دوسرے کو ختم کرنے کے درپے ہوگیں ، تو اس وقت کے اہل دل اور پیغمبروں نے پھر سے انھیں ایمان کی نسبت سے متحد کرنے اور انکی چپقلشوں کو ختم کرنے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ اسی دور کے بعد سے آنے والے ہر پیغمبر ایک ایسے بادشاہ کی نوید سنانے لگا جو داؤد کی طرح کا پیغمبر بادشاہ ہوگا۔ داؤد کی نسبت اسلئے کہ طالوت سارے قبائل کو متحد نہ کرپاے تھے لیکن داؤد کی حکومت پر بارہ کے بارہ قبائل متحد ہوگئے تھے۔ کچھ پیشن گوئیاں درج ذیل ہیں؛
۱: وہ ایک بہت بڑا سیاسی لیڈر ہوگا جوکہ داؤد کی شاخ سے ہوگا ( یرمیاہ ۲۳:۵)
۲: وہ شریعت کا پابند ہوگا ( یسیعاہ ۱۱:۲-۵)
۳: وہ قاضیوں کا شرعی نظام قائم کرے گا اور مجلس شوری ( سانھیڈرن) کو بحال کردے گا۔ ( یسیعاہ ۱:۲۶)
۴: جب وہ بادشاہ بن جاے گا تو باقی قوموں کے بادشاہ بھی اسکی موافقت میں چلیں گے ( یسیعاہ ۲)
۵: دنیا ایک خدا کو مانے گی ( یسیعاہ ،۲)
۶: اسے روح القدس کی حمایت حاصل ہوگی اور وہ خدا خوفی رکھنے والا ہوگا ( یسیعاہ ۱۱)
۷: شر اور فساد اسکے سامنے کھڑا نہ ہوسکے گا ( یسیعاہ ۱۱)
۸: وہ خدا کا انکار (الحاد) ختم کردے گا اور دنیا خدا سے متعلق علم کو سمجھ جاے گی ( یسیعاہ ۱۱)
۹: ہر قوم و نسل کے لوگ اسکی حمایت میں ہونگے ( یسیعاہ ۱۱)
۱۰: سارے بنی اسرائیل پلٹ کر فلسطین میں آجائیں گے۔ ( یسیعاہ ۱۱)
۱۱: وہ دنیا میں امن کا پیغامبر ہوگا ( یسیعاہ ۵۲)
۱۲: بنی اسرائیل کی بستیاں پھر سے آباد ہوجائیں گی ( حزقی ایل ۱۶)
۱۳: وہ جنگی آلات کو ختم کروائے گا ( حزقی ایل ۳۹)
۱۴: وہ بیابان پڑی زمینوں کو آباد کرواکر ہرا بھرا کردے گا ( حزقی ایل ۳۶، یسیعاہ ۵۱، آموس ۹)
درج بالا پیشن گوئیوں کے علاوہ بھی کئی درجن اور پیشن گوئیاں ہیں مثلا وہ کنواری سے جنم لے گا، مردوں کو زندہ کرلے گا، کوڑھیوں اور پیدائشی اندھوں کو شفا دے گا، بے جان میں جان ڈال لے گا وغیرہ وغیرہ جن کا میں نے زکر نہیں کیا کیونکہ یہود درج بالا پیشن گوئیوں کے پورا نہ ہونے پر عیسی ابن مریم علیہ سلام کے ان معجزات کو جادو یا جھوٹ کہتے ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہاں یہ زکر کرنا بھی مناسب ہے کہ اناجیل کے مرتب ہونے تک مسیحی اور نصاری درج بالا پیشن گوئیوں پر کیا کہتے تھے۔ نصاری کے مطابق یہ پیشن گوئیاں مسیح علیہ سلام کے حین حیات ضرور پوری ہونی ہیں لیکن ابھی تک وہ حین حیات ہیں ۔ یہ نشانیاں مسیح علیہ سلام کی موت سے پہلے پہلے پوری ہونا ضروری ہیں لیکن ابھی تک انکی موت ہی واقع نہیں ہوی کہ انکے پورے نہ ہونے کا دعوی کیا جاسکے۔ اصحاب کہف کے واقعہ کے بعد تو نصاری کے پاس مسیحیوں کے مقابلے میں مثال بھی موجود تھی ۔ اسکے علاوہ تورات سے بھی اس قسم کی زندگی کی مثالیں دیتے تھے۔ نصاری کے برعکس مسیحی کیونکہ متھرا ازم میں مسیحیت کو ضم کرنے کے لئے جدوجہد کررہے تھے اسلئے انھوں نے مشیاخ کا ترجمہ ایک ہم تلفظ لفظ کی وجہ سے بچانے والا ( savior ) کیا۔ یہ ہو بہو لفظ متھرا کا بھی ترجمہ ہے۔ وہ تمام اقوام جو کبھی نہ کبھی متھراازم کی پیروکار رہیں ان میں آج بھی یہ لفظ تھوڑی بہت ادائیگی کے فرق سے اسی معنوں میں موجود ہے ۔ مثلا پنجابی زبان میں بھی لفظ ” سنگیو تے مترو” یعنی ساتھیو اور حفاظت کرنے والو آج بھی مستعمل ہے۔ ساؤل ( پاول) چونکہ عبرانی نہیں جانتا تھا بلکہ تورات کا ترجمہ استعمال کرتا تھا اسلئے اسے اندازہ نہیں ہوا کہ جس لفظ سے وہ یہ مطلب نکال رہا ہے اسکا مادہ یود-شن-عین ہے جس سے لفظ موشیاح یعنی حفاظت کرنے والا بنتا ہے ۔ جبکہ مشیاخ کا مادہ عبرانی میں میم۔ شین۔خط ہے جس سے مشیاخ بنتا ہے جسکا معنی مسح کیا گیا ہے۔ تاہم اسکے ساتھ ساتھ مسیحیوں نے کفارے کے لئے سیدنا مسیح کی تین دن کی موت کا دعوی کرتے ہوے یہ واضح کیا مسیح علیہ سلام کی بادشاہت بطور خدا آسمانوں پر قائم ہے لیکن جونہی قیامت قائم ہوگی وہ اس زمین پر لوٹ کر سب انسانوں کو زندہ کرکے زمین کو جنت میں بدل کر کفارے پر ایمان رکھنے والوں پر ابد آباد تک حکومت کریں گے ۔ وہ موت کو موت دے دیں گے اور پھر انکی بادشاہی میں انسان کی عمر لامتناہی ہوجاے گی ۔ اسطرح ان پیغمبروں کی پیشن گوئیاں آخری درجے میں پوری ہورہی ہونگی۔ ظاہر ہے کہ آخرت کی بادشاہی کا تصور تورات میں صاف صاف خدا کے لئے مزکور ہے اس لئے یہود نے اس تاویل کو کبھی قبول نہیں کیا۔ لیکن مسیحی چونکہ سیدنا مسیح کو خدا ہی کہتے ہیں اس لیے انکے لئے یہ عقیدہ بعینہ تورات میں بیان کردہ آخرت کے تصور سے میل کھاتا ہے۔ لیکن مسیحوں کے لئے اس ضمن میں مسئلہ یہ بنتا ہے کہ اناجیل کے مطابق مسیح علیہ سلام نے بار بار بنی اسرائیل کے بارہ قبائل پر خدائی حکومت قائم کردینے کا واعدہ کیا ہے اور بار بار کیا ہے۔

کامرن الٰہی ظہیر