یہ محبت نہیں بری عادت ہے!
پیپرز کے دنوں میں یونیورسٹی میں معمول سے زیادہ گہما گہمی تھی، میں نے بھی نوٹس کھولے اور سرسری سا دیکھنے لگ گئی۔
ایک لڑکی آئی اور بیٹھنے کی اجازت مانگ کر بیٹھ گئی۔
تھوڑی دیر آپس کے تعارف میں لگی۔ وہ بھی فائنل کی سٹودنٹ تھی سو تھیسز کے بارے گفتگو ہونے لگی، باتوں باتوں میں وہ اپنے بارے بتانے لگی۔
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عام سے گھرانے، عام سا حلیہ اور معمولی شکل و صورت کی حامل تھی۔ کہنے لگی اپنے کلاس فیلو کو پسند کرتی ہوں۔ اسکے پاس جاب ہے اور بہت امیر فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔
ہمارے کپل کے بارے ہمارا سارا ڈپارٹمنٹ جانتا ہے۔ میرے ماں باپ اور بھائی سب خوش اور ہمارے بارے جانتے ہیں، والدین اس لیے خوش کہ ہماری بیٹی امیر لڑکے سے بیاہی جائے گی۔
ایسی ایسی باتیں کر رہی تھی کہ مجھے عجیب محسوس ہورہا تھا، کہ کیا ماں باپ اتنے materialistic ہوگئے ہیں کہ بچوں کی پرورش میں بس یہ سیکھایا جائے کہ پیسہ سب کچھ ہے، چاہے اس کے لئے تمہیں اپنی moral values ہی بھلانا پڑیں!
جوانی منہ زور گھوڑے کی مانند ہے، اسکی لگام کو سنھبالنے کے لیے والدین کو بچوں کی moral support اتنی کرنی چاہیے ہوتی جتنی وہ financially یا economically کرتے ہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
وہ پتہ نہیں فحر و مسرت سے کیا کیا بتا رہی تھی اور میں اپنی ہی سوچوں میں گم تھی!
اس نے مجھے مخاطب کیا تو میں چونکی اور اب بولنے کی میری باری تھی، میں نے کہا:
جس طرح کا دوست ہوگا وایسا ہی ہمارا کریکٹر بننا شروع ہو جاتا ہے۔ میں نے ایک بار کہیں پڑھا تھا:-
When you chose your friend very carefully
Because after a small change they become your introduction
آج کے دور میں opposite gender کی فرینڈ شپ فیشن بن گیا ہے۔ کچھ لوگ بڑے فخر سے ان حرکتوں کو روشن خیالی اور لبرل ازم کا نام دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ میاں بیوی کی آپس میں نہیں بن پاتی۔ شادی سے پہلے جذبات کی روانی میں نہ جانے کیا کیا گناہ سرزد ہوتے چلے جاتے ہیں، جب وہ ہی کپل پریکٹیکل لائف میں آتے ہیں تو انہیں ایک دوسرے میں عیب نظر آتے ہیں جو ازدواجی زندگی میں ناچاقی کا سبب بنتے ہیں۔ یاد رکھیں! بدکاری کرنے والے مرد اور عورت کو منہ کالا کرنے کے بعد سب سے پہلے جس شخصیت سے نفرت ہوتی ہے، وہ ان کا گناہ شریک پارٹنر ہوتا ہے۔ بری عورت سب سے پہلے اس مرد کی نگاہ سے گرتی ہے، جس کے ہاتھوں وہ اپنی عزت لٹواتی ہے!!
میں اسے اپنے الفاظ سے قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی، تھوڑی دیر کے لیے رک کر میں نے جائزہ لینے کی کوشش کی کہ میری گفتگو کا اس پر کیا اثر ہورہا ہے۔ مجھے positive response محسوس ہوا تو میں نے مزید کہا:
تقدیر اللہ کے ایک اشارے پر بدل جایا کرتی ہے، تم یقین رکھو وہ بہتر لے کر بہترین دے گا، لہذا اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ناجائز تعلقات ترک کردو۔ ویسے بھی غیر محرم سے محبت نہیں ہوتی یہ شیطانی بہکاوے ہوتے ہیں!
اللہ تعالٰی اس غیر محرم کے ذریعے آزماتا ہے، وہ جب چاہے ہنساتا ہے اور جب چاہے رلا دیتا ہے:
(وَاَنَّهٝ هُوَ اَضْحَكَ وَاَبْكٰى) (القرآن)
وہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے۔
میں نے کہا: آپ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے اسے چھوڑ کر دیکھیں کیسا خوبصورت اجر اور بہترین بدلہ دے گا۔ بے شک اللہ کے فیصلے ہماری خواہشوں سے بہتر ہیں۔
کہنے لگی: یہ سب بہت مشکل ہے۔
میں نے کہا: آپ کو محبت سے زیادہ عادت ہے، عادتیں چھوڑی جاسکتیں ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے مدد طلب کیجیے اور کثرت سے یہ دعا پڑھیں:
“یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک”.
“اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو دین پر ثابت قدم رکھ”-
خود کو آپ خود بدل سکتے ہو—– کوئی دوسرا نہیں !!
ہمت آپ کو کرنی ہے، پہلا قدم آپ کو اٹھانا ہے، ہزاروں مخالفتوں کے باوجود۔ کیونکہ قبر سے جنت تک کا سفر اکیلے ہی طے کرنا ہے۔
وہاں کوئی ماں باپ بہن بھائی دوست رشتہ دار کام نہیں آئیں گے۔
جنت میں فرشتے نیک لوگوں کا اِستقبال یہ کہتے ہُوئے کریں گے کہ سلامتی ہو تُم پر، اُن سب چیزوں کے لِیے جِنہیں تُم نے صبر سے برداشت کِیا تھا!(القرآن)
یہ سب سننے کے بعد کہنے لگی: میں کوشش کروں گی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر۔
میں نے کہا: ان شاء اللہ عزوجل کہنا نہ بھولیں۔۔۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپکی ضرور مدد کریں گے۔
کہتی: سکون قلب کے لیے کچھ بتا دیں۔
میں نے کہا: آپ پڑھا کریں:
“وافوض آمری الی اللہ ان اللہ بصیر بالعباد”.
“میں اپنا معاملہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سپرد کر تا ہوں یقیناً اللہ سبحانہ وتعالیٰ بندوں کا نگران ہے”۔
دیکھا تو پیپر کا ٹائم ہونے والا تھا، سو ایک دوسرے کو اللہ حافظ کہا اور اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلے گئے۔
از قلم:ساجدہ ابرہیم
العلماء شعبہ خواتین