جدید تحقیق سے یہ سٹڈی سامنے آئی ہے کہ زیادہ سوچنا دماغ میں زہریلے کیمیکلز کی نشوونما کا باعث بن سکتا ہے۔ ٖخیال رہے کہ اس سوچ کا تعلق تدبر اور فہم و فراست کے لیے سوچنے سے نہیں ہے۔
امریکی جریدے کرنٹ بائیولوجی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جب دماغ زیادہ دیر تک متحرک رہتا ہے تو ایسی شکل ڈھال لیتا ہے کہ اسے زیادہ محنت کی ضرورت پیش نہیں آتی، جس سے گلوٹامیٹ نامی کیمیکل کی گردش متاثر ہوتی ہے، انسان تھکاوٹ محسوس کرتا ہے اور کام کرنے کی ہمت کھو سکتا ہے۔
ماہرین طب نے اس سلسلے میں اپنی رائے پیش کی ہے کہ تھکاوٹ دماغ کی طرف سے پیدا کیا گیا ایک خیال یا وہم ہے جو کسی بھی شخص کو کام کرنے سے روک دیتا ہے اور اطمینان بخش سرگرمیوں کی طرف مائل کریتا ہے۔
ایک اور نظریے کے مطابق سخت مشقت جسمانی تھکاوٹ کا باعث بنتی ہے ایسے ہی ضرورت سے زیادہ سوچنا شدید ذہنی تھکن کا باعث بنتا ہے، جس سے توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔
گلوٹامیٹ ایک نیورو ٹرانسمیٹر ہے جو دماغ میں حوصلہ افزا افعال کو متحرک رکھتا ہے۔ دماغ کے بھرپور طریقے سے کام کرنے کے لیے جسم میں گلوٹامیٹ ہونا ضروری ہے لیکن یہ صحیح وقت اور صحیح ارتکاز میں ہونا چاہیے۔
اگر جسم میں نیورو ٹرانسمیٹر کی مقدار ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو یہ نیورو ٹرانسمیٹر پارکنسنز یعنی رعشہ، الزائمر یعنی بھولنے اور ہنٹنگٹنز ڈیزیز یعنی دماغی عوارض جیسی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ اگر انسان اپنی سوچوں کو قابو میں نہیں کرتا تو وہ ذہنی مریض بھی بن سکتا ہے۔ سوچوں اور خیالات پر کنٹرول دراصل پرسکون زندگی کا ایک اہم کلیہ قرار دیا جاتا ہے۔
تحقیق میں یہ ثابت ہوا ہے کہ ضرورت سے زیادہ سوچنے والے افراد دراصل وہموں کے غلبے میں آ جاتے ہیں۔ کوئی چھوٹی سی بات یا سوچ انہیں انتہائی حدود پر لے جا سکتی ہے۔ کسی واقعے کو اگر خیالی طور پر طول دیتے ہوئے صرف تصورات میں اس سے نتائج اخذ کرنا شروع کر دیا جائے تو انسان کی معمول کی زندگی تباہ ہو سکتی ہے۔
اس سلسلے میں ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ کسی بات یا نقطے پر مسلسل سوچنے رہنے سے جسم کے اندر پیدا ہونے والے کیمکلز کی وجہ سے جو ردعمل پیدا ہوتا ہے اس کے نتیجے میں کئی بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں، جیسے ہائپر ٹینشن، ذیابیطیس اور ڈیپریشن وغیرہ ۔ اس لیے جو کام منشاء کے خلاف ہو جائے اس پر اللہ کی سپرد کر کے فراموش کردینا چاہیے۔ اور اللہ سے بہتر کی امید کرنی چاہیے۔