وہ کاسنی سے لب و لہجے ہوں یا قلب و نظر میں موجود طنطنے، وہ فہم و فراست کے اعلا مرتبے پر فائز افراد ہوں یا بذلہ سنجی میں گُندھے جوان رعنا لوگ، چند جھٹکے ہی تو لگتے ہیں کہ سب کچھ برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔مًیں اکثر کہا کرتا ہوں کہ موسم بڑے ہی بے اعتبار ہوتے ہیں اور بے اختیار بھی، انسانوں کے برباد ہونے میں فقط چند ثانیے ہی تو لگتے ہیں، چند منٹوں میں سب کچھ تہس نہس اور ملیامیٹ ہو کر رہ جاتا ہے۔اچانک آنے والی افتاد کے بعد ملنے والے کرب و اضطراب کا سلسلہ کئی برسوں پر محیط ہوتا ہے۔یہ درد اتنے ہولناک ہوتے ہیں کہ آنسو تک سہم جاتے ہیں۔تباہی اور بربادی اِس قدر ہیبت ناک ہوتی ہے کہ کہ سانسیں سمٹ کر رہ جاتی ہیں۔قدرتی آفات، افراد کو سنبھلنے کا موقع ہی کب دیتی ہیں؟ ترکی اور شام کے زلزلے میں ملبے کے ڈھیر تلے دبی بے بسی کے اشک آلود مناظر بہت سے لوگ دیکھ چکے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق ترکی اور شام میں 50 ہزار کے قریب ہزار کے قریب لوگوں کو زلزلے نے نگل لیا ہے اور لاکھوں افراد کے گھروں میں موجود آسودگیوں کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے، محض چند لمحوں میں خوں خوار بھونچال نے ترکی اور شام کے اَن گنت لوگوں کے سپنوں کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے۔ذرا ماضی کے دریچے میں جھانک کر دیکھیں تو ہم آج تک اکتوبر 2005 ء کے زلزلے کی اذیتیں سہار نہ پائے، وہ قیامت خیز لمحات اب بھی یاد آ جائیں تو خوف و ہراس کی لہریں جسم و جاں کو لرزا اور دہلا کر رکھ دیتی ہیں۔آج ترکی اور شام ان ہی مصائب اور آلام سے گزر رہے ہیں جو 2005 ء میں ہمیں گھایل کر گئے تھے۔
قدرتی آفات، مصائب اور مسائل کا طویل سلسلہ لاکھوں لوگوں کے ساتھ نتھی کر جاتی ہیں۔ زلزلے ہوں یا طوفانِ باد و باراں، ان کے زخم برسوں پر محیط ہوتے ہیں۔لاریب زلزلوں کی غارت گری بہت بھیانک ہوتی ہے لیکن یہ تباہی زمین کے کسی ایک مخصوص حصّے ہی پر ہوتی ہے، مَیں آپ کو ایک ایسے زلزلے کے متعلق بتانے لگا ہوں جو اس سارے کرّہ ارض کو تباہ کر دے گا۔اس زلزلے کا ذکر اللہ نے سورۃ الزّلزال میں بیان کیا ہے۔اس زلزلے کی ہلاکت آفرینی دیکھیے کہ اللہ نے اس سورہ کا نام ہی زلزال رکھ دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔” جب زمین پوری طرح جھنجوڑ دی جائے گی اور اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی، انسان کہے گا کہ اِسے کیا ہو گیا ہے “
آج ہم خود غرضی اور نفسا نفسی کے جس عہد میں زندہ ہیں، ہم نے اس زلزلے کو یکسر ہی بھلا دیا ہے۔آج ہم نے مال و منال کے لوبھ میں تمام رشتوں اور تعلقات کو مسموم کر چھوڑا ہے، مقتدر لوگوں کے ساتھ ساتھ عوام النّاس نے بھی بدعنوانی کی جس لَت میں مبتلا ہو کر اخلاقیات، سماجیات اور معاشرت کا ستیاناس کر کے رکھ دیا، اس کی مثال ماضی قریب میں تو کہیں نہیں ملتی۔یاد رکھیں! وہ زلزلہ بھی ضرور آئے گا جو سب کو برباد کر ڈالے گا۔ترکی کے ایک شہری کا کہنا ہے کہ ” مالکِ مکان نے کرایہ بڑھا دیا اور میرے پاس گنجایش نہیں تھی، مکان کے مالک نے زلزلے سے تین روز قبل مجھے گھر سے نکال دیا، آج مَیں اور وہ مالکِ مکان ایک ہی خیمے میں ہیں۔ “
ہماری آنکھیں کتنے زلزلے دیکھ چکیں، کتنے ہی سیلاب کسی عذاب کی صورت سیکڑوں بستیوں کو نگل گئے مگر ہمارے دل کے کسی گوشے میں خوفِ خدا کی کوئی کرن نہیں ٹمٹمائی۔ہم آزمایشوں میں مبتلا ہونے کے باوجود اپنے دلوں میں عناد و فساد کا بوجھ لیے پھرتے ہیں۔ہم کل بھی جھوٹی انا کے خوگر تھے اور آج بھی اسی انا کے خول میں مقیّد ہیں۔ہم نے کسی بھی سانحے پر اپنے آپ کو اصلاح پر آمادہ کیا ہی نہیں۔زمین پر یہ زلزلے در اصل ہمیں جھنجوڑنے اور سدھارنے کے لیے آتے ہیں، یہ ہماری توجہ اس زلزلے کی طرف مرکوز کروانے آتے ہیں جس کی تباہی اور بربادی کا تصوّر ہی محال ہے۔وہ زلزلہ جس کا ذکر اللہ نے قرآن مقدّس میں بیان کیا ہے وہ ضرور آئے گا۔اسی سورہ زلزال کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ” پس جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا “
اگر ہمارے ہمارے ایمان و ایقان میں ذرا سی رمق بھی باقی ہے تو شام کے ملبے سے نکالی جانے والی دس سالہ زخموں سے کراہتی بچی کی ویڈیو دیکھ لیجیے! جو مسلسل کَہ رہی ہے ” کم یوما ما صلیت “ مَیں نے کتنے دنوں سے نماز ادا نہیں کی۔چار دنوں تک ملبے میں دبی رہنے کے باوجود اس معصوم بچی کو اپنی نماز کی فکر ہے۔ہم ہمہ قسم کے شعور سے لبریز ہیں، ہم فہم و ادراک کے بھی اعلا و ارفع منصب پر فائز ہیں، مگر آخرت کے متعلق شعور اور آگہی کا کوئی غنچہ ہمارے اندر کیوں نہیں چٹکتا؟ امن لکھنوی نے کیا خوب کہا تھا!
زندگی اک سوال ہے جس کا جواب موت ہے
موت بھی اک سوال ہے جس کا جواب کچھ نہیں