سوال (2612)
اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا سَوَآءٌ عَلَيۡهِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَهُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ [سورة البقرة : 06]
“لا یؤمنون” فرمایا لیکن اس کے بعد بھی بہت سے لوگ مسلمان ہوئے تو اس کا کیا جواب ہوگا؟ راہنمائی فرمائیں۔
جواب
پہلی بات یہ ہے کہ یہ آیت سورۃ بقرہ کی ہے، سورۃ بقرہ مدنی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ ان کفار کے بارے میں ہے جو انتہائی قسم کے ضدی ہیں، باقی کفار مسلمان ہوئے ہیں، وہ استثنائی معاملہ ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ
{ لَا يُؤْمِنُوْنَ:} اس سے مراد تمام کفار توہو نہیں سکتے، کیونکہ بے شمار کافر دعوت کے نتیجے میں ایمان لائے اور لا رہے ہیں۔ اس لیے یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو پچھلی آیات میں مذکور چھ چیزوں کا یا ان میں سے بعض کا انکار کر دیتے ہیں اور ہٹ دھرمی کی اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ اگر یہ حق بھی ہو تو ہم اسے نہیں مانیں گے، جیسے بعض یہود مدینہ [بقرة : ۱۴۶] اور ابو جہل اور اس کے ساتھی وغیرہ۔ [انفال : ۳۲] جب کوئی طے کر لے کہ میں نے ماننا ہی نہیں تو اسے ایمان کیسے نصیب ہو سکتاہے ؟ سوئے ہوئے کو جگایا جاتا ہے، جاگتے ہوئے مدہوش کو کون جگا سکتا ہے؟ اس کے یہ معنی نہیں کہ ڈرانا بالکل فضول ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا پیغام ہر شخص تک پہنچانا فرض ہے، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اللہ کے علم میں کون ایمان لانے والا ہے اور کس کی قسمت میں کفر پر اصرار ہے، ہمیں ہر حال میں ڈرانے پر ثواب ملے گا اور نہ ڈرانے پر باز پرس ہو گی۔ اس لیے فرمایا کہ ڈرانا نہ ڈرانا ان پر برابر ہے، یہ نہیں فرمایا کہ آپ پر برابر ہے۔ یہاں ہمزہ کا معنی ’کیا ‘ نہیں ہو گا، بلکہ یہ برابری کا مفہوم ادا کر رہا ہے، اسے ’ہمزہ تسویہ‘ کہتے ہیں۔
[تفسیر القرآن عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ]
نبی ﷺ کی یہ شدید خواہش تھی کہ سب مسلمان ہوجائیں اور اسی حساب سے آپ ﷺ کوشش فرماتے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایمان ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ یہ وہ چند مخصوص لوگ ہیں جن کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی (جیسے ابو جہل اور ابو لہب وغیرہ) ورنہ آپ ﷺ کی دعوت و تبلیغ سے بیشمار لوگ مسلمان ہوئے حتٰی کہ پھر پورا جزیرہ عرب اسلام کے سایہ عاطفت میں آگیا۔
[احسن البیان]
فضیلۃ الباحث افضل ظہیر جمالی حفظہ اللہ