سوال (276)

النکت علی ابن الصلاح لابن حجر کا کون سا نسخہ بہتر ہے؟

جواب:

میرے علم کے مطابق اس کی اب تک دو تحقیقات منظر عام پر آئی ہیں:
سب سے پہلے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کلیۃ الحدیث کے دکتوراہ کے ایک طالبعلم ربیع بن ہادی عمیر کی ہے، جو بعد میں فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ کے نام اور امام اہل السنۃ، حامل رایۃ الجرح والتعدیل جیسے القابات سے معروف ہوئے۔
اس کی دوسری تحقیق عراق کے ایک معروف عالم ماہر یاسین الفحل کی طرف سے آئی ہے۔ جو حدیث، علوم الحدیث اور جرح و تعدیل کی کتابوں کی تحقیق کے حوالے سے ایک معروف نام ہیں۔
النکت کا عموما وہی نسخہ معروف ہے جو شیخ ربیع کی تحقیق کے ساتھ ہے، لیکن چونکہ یہ ابتدائی عمل ہے، اس وجہ سے اس پر کچھ ملاحظات بھی سامنے آئے، مثلا کئی جگہ پر شیخ سے مخطوط پڑھنے میں لغزشیں ہوئیں، حافظ ابن حجر کے ذکر کردہ حوالہ جات کی تخریج کرتے ہوئے بعض مقامات پر شیخ نے لم أجدہ، یا لم أقف علیہ وغیرہ کے الفاظ استعمال کیے، حالانکہ وہ نصوص محولہ مقامات پر موجود تھیں۔ اسی طرح کچھ جگہوں پر حافظ ابن حجر پر تعقب کیا گیا، حالانکہ دیگر باحثین کے نزدیک اس میں حافظ ابن حجر کا موقف درست تھا۔ وغیرہ۔
اس پر ایک کتاب “المعیار” کے نام سے منظر عام پر آئی، جس میں شیخ ربیع کی ’النکت’ کی تحقیق کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان کی علمی و تحقیقی صلاحیت کو ماپنے کی کوشش کی گئی۔ اس کتاب کا مقصد تو یہی لگتا ہے کہ اے مداخلہ جسے تم امام اہل السنۃ اور امام الجرح والتعدیل سمجھتے ہو، اس کی علوم الحدیث اور جرح و تعدیل سے متعلق معرفت کا یہ حال ہے؟! بالفاظ دیگر شیخ ربیع مدخلی اور ان کے فریق کے ساتھ دیگر اہل علم (فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن عبد الخالق رحمہ اللہ وغیرہ) کی جو مخاصمت تھی، اس کے پس منظر میں یہ کتاب لکھی گئی۔ شیخ ربیع نے اس کے جواب میں ’بیان فساد المعیار، حوار مع حزبی متستر’ لکھی، اور بتایا کہ اس میں بلاوجہ سلفیت کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے تنکے کو پہاڑ بنا کر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، کیونکہ یہ ایسی غلطیاں نہیں جس بنیاد پر کسی کو اہل السنۃ والجماعۃ سے خارج کیا جائے؟!
اور پھر بتایا کہ میرا یہ کام طالبعلمی کے دوران تھا، اسی طرح رسائل و مقالہ جات لکھنے میں کئی ایک رسمی پابندیاں ہوتی ہیں، جس وجہ سے یہ غلطیاں تحقیق میں راہ پا گئیں، جو کہ اکثر میں نے بعد میں درست بھی کرلی تھیں، صاحب المعیار کو رائی کو پہاڑ بنانے کی کوئی حاجت نہیں تھی!! اور پھر صاحب المعیار کی کئی ایک غلطیوں کی فہرست بنا کر پیش کی!!
قصہ مختصر 2008ء میں شیخ ربیع کی تحقیق دوبارہ نشر ہوئی، جس کے متعلق اہل علم ( جیسا کہ فضیلۃ الشیخ خالد الردادی رحمہ اللہ) کی رائے یہ ہے کہ یہ طبعہ شیخ ماہر الفحل کی تحقیق سے بہت اچھا ہے۔
ماہر یسین الفحل صاحب کی تحقیق کچھ سال پہلے منظر عام پر آئی، جس میں معروف محدث و محقق احمد معبد عبد الکریم کی تقریظ بھی ہے۔ اس تحقیق کے لیے جواز یہ پیش کیا گیا کہ پہلے والی تحقیق میں بے شمار تصحیفات و تحریفات ہیں اور مقدمہ میں اور تعلیقات میں اس کی درجنوں مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔
بلکہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ملتقی اہل الحدیث میں کسی جگہ ’المعیار’ کا ذکر چلا، تو شیخ ماہر الفحل نے وہاں یہ بات کہی تھی کہ صاحب المعیار نے استدراک و تعقب میں صرف چند غلطیوں کی ہی نشاندہی کی ہے، حالانکہ حقیقت میں بے شمار غلطیاں ہیں، جس سے کتاب کی قیمت زیرو ہو جاتی ہے۔ اور اس کے بعد ان کی تحقیق منظر عام پر آئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے بعض مقامات پر شیخ ربیع، صاحب المعیار اور دکتور الفحل تینوں کی تحقیقات کو ملا کر دیکھا ہے، تینوں میں اتفاق نہیں ہے اور بعض جگہوں پر الفحل شیخ ربیع کے ساتھ ہیں اور بعض میں صاحب المعیار کے ساتھ۔
شیخ أحمد معبد عبد الکریم نے اپنی تقریظ میں بھی یہ بات ذکر کی ہے کہ اعادۃ نشر الکتاب کی وجہ پہلی طبعات میں موجود غلطیاں ہیں، لیکن موجودہ کام بھی (یعنی ماہر الفحل کی تحقیق) مکمل غلطیوں سے خالی ہو، یہ دعوی بھی ممکن نہیں!
شیخ ربیع کی تحقیق طباعت ثانی 2008 میں جبکہ شیخ ماہر الفحل کی تحقیق، طباعت اول 2013 میں آئی ہے، اس کے درمیان ایک اور طباعت دار الکتب العلمیۃ کی طرف سے بھی آئی، جو اس مکتبہ کے مزاج اور عادت کے مطابق شیخ ربیع کے نسخہ کی مکمل کاپی پیسٹ تھی، جو غلطیاں اس میں ہیں وہی اس میں جیسا کہ دکتور ماہر الفحل نے ذکر کیا۔
یہاں یہ ذکر کردینا بھی فائدہ سے خالی نہیں کہ مشہور محقق و محدث طارق عوض اللہ حفظہ اللہ کی تحقیق سے بھی ایک نسخہ منظر عام پر ہے، جس میں ابن الصلاح، عراقی اور ابن حجر تینوں کو اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ اس میں علوم الحدیث لابن الصلاح کا متن تو مطبوعہ نسخوں سے لیا ہے، البتہ نکت العراقی اور نکت ابن حجر کی قلمی نسخوں سے تحقیق کی ہے۔ لیکن اس میں انہوں نے تینوں کتابوں میں ربط پیدا کرنے کے لیے ابن الصلاح کی ترتیب کے مطابق متن پر حاشیے لگا کر عراقی اور ابن حجر کے نکات ذکر کردیے ہیں، جس میں نکت ابن حجر کی ترتیب میں بالخصوص تقدیم و تاخیر کی گئی ہے۔
اسی طرح ایک اور صاحب علم رضوان جامع رضوان صاحب نے ’جامع شروح مقدمۃ ابن الصلاح‘ کے نام سے ایک نسخہ ترتیب دیا ہے، جس کا صرف ٹائٹل میں نے دیکھا ہے، اس پر لکھا ہوا ہے کہ اس میں عراقی، ابن ملقن، ابن حجر اور زرکشی چار ائمہ کی شروحات کو جمع کیا گیا ہے۔
بہرصورت طالبعلم ان تحقیقات میں سے کوئی بھی لے سکتا ہے، میرے پاس مدخلی صاحب کی تحقیق دوسرا ایڈیشن ہے، لیکن جہاں اشکال ہو، وہاں اصل مصادر سے خود تحقیق کرلیں۔ جس کو موقع ملے وہ “النکت” کی تمام طبعات اور ساتھ ’المعیار’ اور ’بیان فساد المعیار’ کو دیکھ لیں!
اور یہ بات پہلے بھی کسی جگہ عرض کی تھی کہ کسی سے نقل کرتے ہوئے ہمیشہ سوء ظن رکھتے ہوئے اصل مصدر کی طرف رجوع کریں، لیکن کسی کی تردید و تغلیط کرتے ہوئے ہمیشہ حسن ظن کا پہلو غالب رکھیں۔
اور یہ کتاب النکت اس کی بہترین مثال ہے۔ ایک ہی مسئلے میں ابن الصلاح پر عراقی تعلیق لگاتے ہیں، پھر اس پر ابن حجر اپنی تحقیق پیش کرتے ہیں، اور پھر معلقین و محققین اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق حاشیہ آرائی کرتے ہیں۔ اور بعض جگہوں پر بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ علم و تحقیق کی کتنی پرتیں ہیں اور وہ کیسے کیسے کھل کر سامنے آتی ہیں!

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ