سوال (3569)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایک قبر کے پاس سے گزرے جس میں کچھ وقت پہلے ہی میت کو دفن کیا گیا تھا، تو فرمایا: ”دو مختصر سی رکعتیں جنہیں تم حقیر سمجھتے ہو، اس قبر میں پڑے ہوئے بندے کا مکمل زادِ راہ ہے، اور اس کیلیے وہ تمہاری تمام باقی دنیا سے بڑھ کر محبوب ہیں!“ [مصنف ابن أبي شيبة: ٧٦٣٣]
کیا مصنف ابن ابی شیبہ میں مذکور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ اثر ثابت ہے؟
جواب
ﺭﻛﻌﺘﺎﻥ ﺃﺣﺐ ﺇﻟﻰ ﻫﺬا ﻣﻦ ﺑﻘﻴﺔ ﺩﻧﻴﺎﻛﻢ روایت کی تحقیق
حدثنا حفص عن أبي مالك عن أبي حازم قال: مررت مع أبي هريرة على قبر دفن حديثًا، فقال: لركعتان خفيفتان) مما تحتقرون زادهما هناأحب إليه من بقية دنياكم، [مصنف ابن أبي شيبة : 7843]
یہ روایت ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﺃﺑﻮ ﻫﺸﺎﻡ اﻟﺮﻓﺎﻋﻲ عن ﺣﻔﺺ ﺑﻦ ﻏﻴﺎﺙ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﺎﻟﻚ ﻭﻫﻮ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﻃﺎﺭﻕ کے طریق سے مرفوعا بھی وارد ہوئی ہے
[دیکھیے زوائد الزهد والرقائق: 31 ، القبور لابن أبي الدنيا : 116]
اسی طرح حفص کے دو اور شاگرد اسے مرفوعا بیان کرتے ہیں۔
حفص بن عبد الله الحلواني المعجم الأوسط:920 ، ابراہیم بن محمد بن العباس الشافعي المكي أخبار أصبهان : 1796
معجم أوسط کی سند و متن:
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﻗﺎﻝ: ﻧﺎ ﺣﻔﺺ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﺤﻠﻮاﻧﻲ ﻗﺎﻝ: ﻧﺎ ﺣﻔﺺ ﺑﻦ ﻏﻴﺎﺙ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﺎﻟﻚ اﻷﺷﺠﻌﻲ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺯﻡ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﺮ ﺑﻘﺒﺮ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻣﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﻫﺬا اﻟﻘﺒﺮ؟ ﻓﻘﺎﻟﻮا: ﻓﻼﻥ. ﻓﻘﺎﻝ:ﺭﻛﻌﺘﺎﻥ ﺃﺣﺐ ﺇﻟﻰ ﻫﺬا ﻣﻦ ﺑﻘﻴﺔ ﺩﻧﻴﺎﻛﻢ ﻟﻢ ﻳﺮﻭ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﺎﻟﻚ ﺇﻻ ﺣﻔﺺ ﺑﻦ ﻏﻴﺎﺙ. ﺗﻔﺮﺩ ﺑﻪ: ﺣﻔﺺ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، [المعجم الأوسط : 920]
تاريخ أصبهان کی سند و متن:
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ اﻟﻤﺮﺯﺑﺎﻥ اﻟﻮاﻋﻆ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺭﺳﺘﺔ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻌﺒﺎﺱ اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ اﻟﻤﻜﻲ، ﺛﻨﺎ ﺣﻔﺺ ﺑﻦ ﻏﻴﺎﺙ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﺎﻟﻚ اﻷﺷﺠﻌﻲ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺯﻡ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: ﻣﺮ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﻘﺒﺮ ﺟﺪﻳﺪ ﺩﻓﻦ ﺣﺪﻳﺜﺎ، ﻓﻘﺎﻝ: ﺭﻛﻌﺘﺎﻥ ﺧﻔﻴﻔﺘﺎﻥ ﻣﻤﺎ ﺗﺤﺘﻘﺮﻭﻥ ﺃﺣﺐ ﺇﻟﻰ ﻫﺬا ﻣﻦ ﺑﻘﻴﺔ ﺩﻧﻴﺎﻛﻢ، [تاريخ أصبهان: 2/ 196، 276]
اس سند میں سقط ہے اور راجح إبراهيم بن محمد بن العباس ہے اور ابو نعیم کے شیخ أهل ورع میں سے ہے مگر اس کی توثیق میرے علم کے مطابق کسی ناقد امام نے نہیں کی ہے۔
پہلا طریق وسند ضعیف ہے
أبو هشام الرفاعي مجروح اور روایت حدیث میں ناقابل حجت راوی ہے، تفصیل کتب تراجم میں دیکھ سکتے ہیں.
دوسرے طریق میں حفص کے شاگر أبو عمر حفص بن عبد الله الضریر الحلواني صدوق راوی ہیں
[دیکھیئے الجرح والتعديل : 3/ 175]
تیسرے طریق میں جو حفص بن غیاث کے شاگرد ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺷﺎﻓﻊ ہیں وہ ثقہ ہیں مگر اپنے سے أوثق وأحفظ امام ابو بکر بن أبی شیبہ صاحب المصنف والمسند کی مخالفت کر رہے ہیں جو اس روایت کو حفص بن غیاث سے موقوفا بیان کرتے ہیں دوسرا اس سند کے پہلے راوی ابن مرزبان کی توثیق میرے علم کے مطابق کسی بھی ناقد امام سے ثابت نہیں ہے۔ امام ابو بکر بن أبی شیبہ کے بارے چند ایک تصریحات بیان کیے دیتا ہوں جس سے ان کا احفظ واوثق ہونا واضح ہو جائے گا۔ امام أبو بکر بن أبی شیبہ کے بارے میں امام ابن حبان نے کہا:
ﻭﻛﺎﻥ ﻣﺘﻘﻨﺎ ﺣﺎﻓﻈﺎ ﺩﻳﻨﺎ ﻣﻤﻦ ﻛﺘﺐ ﻭﺟﻤﻊ ﻭﺻﻨﻒ ﻭﺫاﻛﺮ ﻭﻛﺎﻥ ﺃﺣﻔﻆ ﺃﻫﻞ ﺯﻣﺎﻧﺔ
[الثقات لابن حبان: 13859، 8/ 358]
امام أبو زرعة الرازي نے کہا:
ﻣﺎ ﺭﺃﻳﺖ ﺃﺣﻔﻆ ﻣﻦ ﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺷﻴﺒﺔ
[من روى عنهم البخاري لابن عدي: 133، الكامل لابن عدي: 1/ 224]
حافظ ذہبی نے کہا:
ﺳﻴﺪ اﻟﺤﻔﺎﻅ، ﻭ ﺻﺎﺣﺐ اﻟﻜﺘﺐ اﻟﻜﺒﺎﺭ۔۔۔ ﻭﻫﻮ ﻣﻦ ﺃﻗﺮاﻥ: ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ، ﻭﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺭاﻫﻮﻳﻪ، ﻭﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﻤﺪﻳﻨﻲ ﻓﻲ اﻟﺴﻦ ﻭاﻟﻤﻮﻟﺪ ﻭاﻟﺤﻔﻆ، ﻭﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ ﺃﺳﻦ ﻣﻨﻬﻢ ﺑﺴﻨﻮاﺕ۔۔۔ ﻭﻛﺎﻥ ﺑﺤﺮا ﻣﻦ ﺑﺤﻮﺭ اﻟﻌﻠﻢ، ﻭﺑﻪ ﻳﻀﺮﺏ اﻟﻤﺜﻞ ﻓﻲ ﻗﻮﺓ اﻟﺤﻔﻆ، [سير أعلام النبلاء :11/ 122،123]
امام ابو بکر بن أبی شیبہ حافظ ومکثر ہیں اور حفص بن غیاث کے بلد سے ہیں اور ان کی حدیث کو ضبط وحفظ کرنے والے ہیں لہزا یہ روایت مرفوعا غیر محفوظ اور موقوفا محفوظ وثابت ہے اس میں حفص بن غیاث کی تدلیس مضر نہیں ہے کیونکہ اس کا تعلق احکام اور حدیث مرفوع سے نہیں ہے کہ اتنی سختی برتی جائے۔
تنبیہ:
محدث الباني رحمه الله تعالى کا اس روایت کو مرفوعا صحیح کہنا مرجوح ہے اور شیخ رحمه الله تعالى نے مصنف ابن أبي شيبة والا طریق نقل نہیں کیا ہے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ وہ ان کے سامنے نہیں تھا۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ