آہ! مولانا ملک عبد الرشید عراقی رحمہ اللہ

اک زود نویس قلمکار کا سانحہء ارتحال

سوشل میڈیا پہ یہ خبر نہایت اندوہ و غم اور حزن و ملال سے نشر کی گئی کہ
زود نویس مضمون نگار،
معروف قلمکار، تذکرہ نگار، اور مشہور مؤلف مولانا
ملک عبد الرشید عراقی رحمہ اللہ 9/ ستمبر 2024ء بروز سوموار کو سوہدرہ میں انتقال کر گئے۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے

محترم عراقی صاحب
ملک عطاء اللہ کے ہاں 10نومبر 1935ء کو سوہدرہ (وزیر آباد) میں پیدا ہوئے۔
آپ پٹھانوں کے قبیلہ ککے زئی سے تعلق رکھتے تھے۔
عصری تعلیم میڑک تک حاصل کی اور دینی تعلیم میں ترجمہ قرآن اور بلوغ المرام، مشکوۃ المصابیح اور ریاض الصالحین وغیرہ کتابیں مختلف اساتذہ کرام سے پڑھیں۔
آپ کے اساتذہ ومشایخ میں مولانا علم الدین ،مولانا عبد المجید خادم سوہدروی،
مولانا حافظ محمد یوسف بن مولانا عبد المجید سوہدروی اور مولانا عبد السلام ہزاروی قابلِ ذکر ہیں۔
محترم عراقی صاحب نے اپنی زندگی کا اکثر حصہ بنک ملازمت میں گزارا۔
ملازمت سے قبل اسلامی کتب اور رسائل و جرائد کے مطالعہ کا شوق پڑ گیا تھا۔
مولانا عطاء اللہ حنیف محدث بھوجیانی رحمہ اللہ کی ترغیب پر ماہنامہ “معارف “اعظم گڑھ اور اور “برھان ” دہلی نامی رسائل اپنے نام جاری کرائے اور ان کا باقاعدہ مطالعہ شروع کیا۔ دریں اثنا مضمون نگاری کا ذوق اجاگر ہوا اور خامہ فرسائی کے میدان میں کود پڑے۔ آپ کا پہلا مضمون “روزہ ڈھال ہے ” کے نام سے پندرہ روزہ “اہل حدیث” دہلی میں شائع ہوا۔اس کے بعد مضمون نگاری میں خوب پیش رفت ہوئی ۔پاکستان کے اکثر رسائل و جرائد میں آپ کے مضامین اشاعت پذیر ہوئے۔
موصوف نے ہر موضوع پر خامہ فرسائی کی، لیکن زیادہ تر آپ کے مضامین شخصیات کے موضوع پر شائع ہوئے۔
عراقی صاحب زود نویس قلمکار تھے.
خاص کر وہ شخصیات کے موضوع پر قلم برداشتہ لکھنے کے عادی تھے۔
مضامین نگاری کے علاوہ آپ نے مستقل کتب بھی تحریر کیں۔ پچاس سے زائد کتابوں کے آپ مؤلف ہیں۔ ان میں اکثر شخصیات پر ہیں۔
مولانا یاسین شاد رحمہ اللہ بطور مزاح کہا کرتے تھے:
“لگتا ہے عراقی صاحب نے وفات پانے والے پر مضمون لکھ کر رکھا ہوتا ہے، وفات کے فورا بعد ان پر مضمون آ جاتا ہے۔”
عراقی صاحب سے راقم کی آشنائی زمانہ طالب علمی سے ہو گئی تھی۔ دور طالب علمی میں کتابیں خریدنے کا شوق تھا۔ عراقی صاحب کی پہلی کتاب جو راقم نے فاروقی کتب خانہ ملتان سے خریدی تھی، وہ مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی کے حالات وخاندان پر تھی۔
شروع میں سوچا کہ عراقی صاحب حنفی المسلک ہوں گے، لیکن جلد ہی یہ عقدہ کھلا کہ وہ قافلہ اہل حدیث کے حدی خواں ہیں۔ آپ کے گوہر بار قلم سے اہل حدیث علمائے کرام کے تراجم اور احوال بکثرت حیطہءتحریر میں آئے۔
شخصیات پر آپ کے مضامین میں بعض جگہ گو تکرار نظر آتا ہے، لیکن فوائد سے خالی نہیں ہے۔
موصوف شخصیات پر لکھتے وقت یہ شعر بکثرت رقم کیا کرتے تھے۔
~ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
آج یہ ان پر صادق آ رہا ہے۔
عراقی صاحب سے پہلی ملاقات کا سبب یوں بنا کہ 2011ء کو مولانا یاسین شاد رحمہ اللہ کے ہمراہ شیخ الحدیث مولانا محمد اعظم رحمہ اللہ کے جنازہ میں شرکت کی اور وہاں پر مولانا عبد الحنان جانباز حفظہ اللہ سے ملاقات ہوئی تو ان کے محبت بھرے اصرار پر مولانا محمد علی جانباز رحمہ کے مدرسہ جامعہ ابراھیمہ سیالکوٹ کی زیارت نصیب ہوئی، رات وہیں بسر کی اور اگلے دن صبح مولانا عبد الحنان جانباز حفظه اللہ کے ذریعہ مولانا عبد الرشید عراقی صاحب سے ملاقات وزیارت کا وقت لیا اور سوہدرہ کی طرف رخت سفر باندھا۔ مولانا یاسین شاد رحمہ اللہ بھی راستے میں ان کے ساتھ رابطہ میں رہے۔ محترم عراقی صاحب کی ذرہ نوازی کہ وہ اپنے رفیق سفر ابو عمر عبد العزیز سوہدروی کے ہمراہ سوہدرہ اڈا پر تشریف لے آئے۔ دونوں احباب تپاک سے ملے ۔وقت کی قلت کے پیش نظر سوہدرہ اڈا پر ہی گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ مجلس بپا رہی۔
چائے بسکٹ سے انہوں نے خاطر تواضع کی۔مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی بالآخر مجلس اختتام پذیر ہوئی اور ہم براستہ وزیر آباد سے گوجرانولہ چلے آئے۔
یہ ان سے راقم کی پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد ملاقات تو نہ سکی البتہ خط کتابت اور موبائل فون کے ذریعے ان سے رابطہ قائم رہا ۔راقم کی کتاب “مولانا عبد التواب محدث ملتانی”پر انہوں نے تبصرہ بھی لکھا ،جس کی خبر انہوں نے ایک مکتوب کے ذریعہ دی۔ اور” مولانا عبد الحق محدث ملتانی” نامی کتاب پر راقم کی خواہش پر انہوں نے مقدمہ لکھ کر ارسال کیا، اگرچہ اس کتاب میں شائع نہ ہوسکا لیکن دوسری کتاب “خزینہ نوازشات ” میں شائع ہو گا، ان شاء اللہ العزیز
عراقی صاحب طبیعت کے مرنجان مرنج، باقار، وضع دار اور ملنسار اور باکردار انسان تھے۔
آپ نے ساری زندگی مضمون نگاری اور تالیف و تصنیف میں گزاری۔قلم وقرطاس سے وابستہ رہے ۔علمی اور جماعتی حلقوں میں جو آپ کو شہرت دوام حاصل ہوئی وہ قلمکاری کی وجہ سے ہی ہوئی ۔
آہ! پرانے قلمی دوست اور احباب باری باری داغ مفارقت دے رہے ہیں لیکن امر واقع یہ ہے کہ~
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔
مولانا عراقی صاحب نے پسماندگان میں سے تین بیٹے اور تین بیٹیاں سوگوار چھوڑیں ہیں۔
اللہ کریم مولانا رحمہ اللہ کی کامل مغفرت فرما کر انہیں جنت میں بلند مقام پر فائز کرے اور آپ کے تمام لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق بخشے۔
آمین یارب العالمین

دل فگار /ریاض احمد عاقب ملتان

یہ بھی پڑھیں: آہ! استاذ فقیر حسین صاحب بھی چل بسے