آہ! استاذ فقیر حسین صاحب بھی چل بسے
❁ ══مارچ 1950ء۔۔۔۔۔۔ اگست 2024ء ══ ❁
؎ کہنے کو تو گل ہوا فقط ایک ہی چراغ
سچ پوچھیے تو”گاؤں”کی رونق چلی گئی
یہ دنیا فانی ہے جو انسان اس دنیا میں آیا ہے اس نے اپنی حیات مستعار کے ایام گزار کر واپس جانا ہے۔ کیا نبی، کیا ولی،کیا نیک، کیا بد سب نے موت کا جام پینا ہے۔ اس دنیا میں کسی کو قرار نہیں۔ خوش نصیب ہے وہ انسان جو دنیا کی زندگی میں رہ کر اچھے اخلاق، اعلیٰ کردار اور حسن سلوک کی اچھی یادیں چھوڑ جائے۔ دنیا سے جائے تو دنیا والے والہانہ عقیدت سے الوداع کریں اور فرشتے والہانہ محبت سے استقبال کریں۔
ہزاروں اختلافات کے باوجود موت سے کسی کو اختلاف نہیں۔ جو انسان دنیا میں آیا ہے اس نے حیاتِ مستعار کے ایام گزار کر اپنے مالک حقیقی کے پاس واپس جانا ہے۔ موت سے نہ کوئی بچ سکا ہے نہ بچ سکے گا۔
؎ قبر کے چوکھٹے خالی ہیں انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر سجا دی جائے۔
استاذ محترم 1971ء میں پرائمری ٹیچر تعینات ہوئے۔ 1978ء میں ٹرانسفر ہوکر اپنے گاؤں چک نمبر 30 جنوبی سرگودھا کے سکول میں آگئے۔ اسی سال میں مجھے کلاس اول میں داخل کروایا گیا میں نے پہلی اور تیسری کلاس ان سے پڑھی۔
پابندئ وقت، اپنے فرائضِ منصبی، طلباء اور ادارے سے محبت ان کا شعار تھا۔ مارننگ اسمبلی میں روزانہ اخلاقی سبق اور کوئی نصیحت آموز واقعہ سنانا لازم سمجھتے تھے۔
گاؤں میں نیکی، تقوٰی، اخلاص، للٌٰہیت، خوش اخلاقی، خوش طبعی اور زندہ دلی کی وجہ سے چھوٹوں اور بڑوں میں یکساں مقبول تھے۔ خدمتِ خلق، اور دوسروں کی خیرخواہی میں پیش پیش رہتے۔
چند امراض کا دم کرتے مگر فیس،نذرانہ اور۔۔۔ شیرینی لینے کی بجائے بیٹھک میں بٹھا کر ماحضر مہمان نوازی کی کوشش ضرور کرتے۔
مطالعہ کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں ہر وقت کوئی نہ کوئی اچھی کتاب ان کے زیر مطالعہ رہتی۔اسلامی، اخلاقی اور معلوماتی کتب کا اک ذخیرہ انکی لائبریری میں موجود تھا۔ میں نے “مخزن اخلاق، ہادئ عالمﷺ، زاویہ ،زیروپوائنٹ شہاب نامہ اور دیگر کتب ان سے لیکر پڑھیں۔
ہر مجلس میں وعظ و نصیحت کے لئے کوئی اسلامی و تاریخی واقعہ سنانا ضروری سمجھتے۔ کوئی لطیفہ سناتے تو اس میں بھی نصیحت کا پہلو ضرور نمایاں ہوتا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اسکول میں گاہے بگاہے تشریف لانا، اسکول کے مسائل کے حل کے لیے تعاون کرنا اور قیمتی مشوروں سے نوازنا گویا اپنے لئے فرض سمجھتے رہے۔
سکول میں والد محترم رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ کئی سال تک اکٹھے وقت گزرا۔ انکی وفات کے بعد جب بھی میری ان سے ملاقات ہوتی محبت اور شفقت کا اظہار کرتے عمدہ نصیحتوں اور دعاؤں سے نوازتے۔
2010ء میں سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد اللہ تعالٰی نے حج اور عمرے کی سعادت سے نوازا۔تلاوت، اذکار، مطالعہ کتب اور تبلیغی جماعت کیساتھ وقت لگانا ان کا مشغلہ تھا۔۔۔ گھر کا سودا سلف اور دیگر ضروریات کیلئے بائیسکل پر سارے گاؤں کا چکر لگالیتے۔ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ کسی عارضے کے بغیر اچھی صحت مند زندگی کے 74سال گزار کر۔۔۔ معمولی علالت کے بعد آج اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اللّٰہ تعالٰی انکی بشری خطاؤں سے درگزر فرماکر جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
🖋️دعاگو: عبدالرحمٰن سعیدی
یہ بھی پڑھیں: مولانا ابو اسعد محمد صدیق رحمۃ اللہ علیہ کی قابل رشک وفات