اہل علم و فضل اور عدم برداشت کا رویہ
اہل علم میں اختلاف ایک فطری اور لازمی امر ہے کیونکہ علم و فہم کی سطح اور زاویے مختلف ہو سکتے ہیں۔
یہ اختلافات نہ صرف علم کی گہرائی اور وسعت کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ نئے خیالات اور مسائل کے حل کے لئے بھی راہیں کھولتے ہیں۔
لیکن اہل علم کے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ برقرار رکھنا ضروری ہے تاکہ یہ اختلافات نفرت اور عداوت میں نہ بدل جائیں۔ اسلامی تاریخ میں بڑے بڑے علماء کے درمیان اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے لئے محبت اور احترام کی مثالیں موجود ہیں۔ل،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اختلافات کا مطلب دشمنی نہیں، بلکہ علمی تبادلہ اور فکری ترقی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اختلافات کو برداشت کیا جائے، دلائل کے ساتھ بات کی جائے، اور ایک دوسرے کی رائے اور موقف کا احترام کیا جائے۔ اس طرح اہل علم میں محبت اور اتحاد برقرار رہتا ہے، جو کہ علم کی حقیقی روح ہے۔
استاذ الاساتذہ شارح بخاری اور محدث گوندلوی رحمہ اللہ کے شاگرد رشید فضیلةالشیخ مولانا محمد رمضان سلفی حفظہ اللہ کا حال ہی میں ایک انٹرویو نشر ہوا ہے، اس پورے انٹرویو کے ایک خاص حصہ کو لے کر سوشل میڈیا پر کافی بحث و مباحثے جاری ہیں۔
چلن یہ بن چکا کہ پہلے طوفان بدتمیزی برپا کر دیا جائے پھر سوشل میڈیا اور فیس بک کے چند بازاری قسم کے لوگ اپنی بلوں سے نکل کر ادب واحترام سے عاری بڑے اساتذہ اور شیوخ کے بارے زبان کھول دیتے ہیں۔۔
امن پوری حفظہ اللہ اس طرح آئے دن کسی نہ کسی کبار علماء کے متعلق کوئی نہ کوئی طنزیہ بات کر دیتے ہیں، پھر ان کی طرف سے معذرت کر لی جاتی ہے ،لیکن یہ معذرت پہلی دفعہ نہیں ہوئی، پہلے بھی کئی بڑے اہل علم کے بارے سخت نازیبا الفاظ کہہ کر بعد میں معذرت کر چکے ہیں، لیکن ہر بار ان سے ایسی غلطی سرزد ہی کیوں ہوتی ہے ؟ کیا اس طرح کی چیزیں ان کی علمی قد کاٹھ کو کم نہیں کریں گیں؟
ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ اختلاف کے بھی آداب ہوتے ہیں۔
بڑوں سے سیکھتے ہیں، اُن پر اپنی رائے تھوپتے نہیں، منہج کے نام پر مناظرے اور مباحثے برپا کر کے ہم کون سا ماحول بنا رہے اور رہی سہی کسر ان کے سوشل میڈیا کے نومولود مہنجی پوری کر دیتے ہیں ۔
ان طویل مباحثوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اہل علم کے ہاں بقیہ اہل علم و ادب کی عزت وتکریم بہہت ارزاں ہو چکی ہے ۔۔
ایک وقت ہم نے وہ بھی دیکھا کہ کوئی عالم کسی دوسرے عالم سے اختلاف کرتے ہوئے کئی بار سوچا کرتے تھے، لیکن اب تو معاملہ اتنا اڈوانس ہو چکا ہے کہ ادھر موقف بیان ہوا اُدھر مخالف سمت سے ایک طویل جوابی تحریر یا انٹرویو در آتا ہے،جیسے وہ تنقیدی جواب لکھنے اور کہنے والے منتظر ہی اس بات کے ہوتے ہوں کب کوئی موقف بیان کرے،ہم اس کو منہجی یا غیر منہجی کا سرٹیفیکیٹ جاری کریں۔
دوسرا علماء کرام کے ہاں عدم برداشت بہت کثرت سے موجود ہے،جس وجہ سے آج یہ سب مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
کسی دوسرے عالم کے موقف کو سپیس دینے کے لئے ہم زرا بھی تیار نہیں ہیں۔
کم از کم لیل و نہار کتاب وسنت اور عملی سیرت کے مبلغین میں یہ چیز قطعا نہیں ہونی چاہیے ، اگر یہ سلسلہ بڑھتا گیا تو بات بہت آگے تک چلی جائے جسے کنٹرول کرنا بہت مشکل ہو جائے گا ۔۔
جبکہ ہمارے اسلاف کا طرز عمل آج کے اہل علم و ادب سے بالکل مختلف تھا ۔
کیوں کہ اختلاف تحقیق اور علم میں ہوسکتا ہے ، مگریہ اختلاف عداوت اور دشمنی نہیں ہوتا ۔ اختلافات صحابہ میں بھی ہوئے۔
اُحد میں کچھ صحابہ کرام سے ایک حکم سمجھنے میں سنگین غلطی بھی ہوگئی تھی ، جس سےحاصل کی ہوئی فتح شکست میں بدل گئی ، اس کے باوجود دوسرے صحابہ کرام نے کبھی طعنے نہیں مارے کہ تمہاری وجہ سے شکست ہوئی۔ خلیفہ ثانی سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ زخمی ہوئے ، شور و غوغا بلند ہوا۔ فرمایا : رونے والے کی وجہ سے مرنے والے کو عذاب ہوتا ہے ، سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کو اس بات کا پتہ چلا تو فرمایا ، اللّٰہ تعالیٰ ابن خطاب پر رحم فرمائے بات ایسے نہیں ہے ، پھر اس کی وضاحت فرمائی ۔
اختلاف ہمیشہ اہل علم کے درمیان ہوتا ہے۔ جاہل بے چارہ کیا اختلاف کرے گا۔لہٰذا علما کے آداب اور احترام کا خیا ل رکھیں ، کسی عالم کو دوٹوک کہہ دینا کہ ’’آپ کی بات غلط ہے۔‘‘ ایک جاہلانہ انداز ہے۔
اہل علم سے اختلاف انتہائی مؤدب پیرائے میں ہونا چاہیے۔
سید بدیع الدین راشدی(م1996ء) جب مولانا سلطان محمود جلالپوری رحمہما اللّٰہ (1995ء)کے ہاں آئے تو محدث جلالپوری نے شاگردوں کو تلقین کی کہ مہمان کا خوب ادب کریں،اور عالم کا ادب یہ ہے کہ اس سے خوب مسائل دریافت کریں۔ کسی نے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا مسئلہ پوچھا۔ محدث راشدی وضع الیدین ، اور محدث جلالپوری ارسال الیدین کے قائل تھے ۔محدث راشدی نے سوال کا جواب دینے سے معذرت کر لی اور کہا کہ اپنے شیخ سے دریافت فرمائیں، جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں ۔
اسی طرح محدث جلالپوری بھینس کی قربانی کے قائل تھے، جبکہ حافظ عبد اللّٰہ بہاولپوری رحمہ اللہ م1991ء) اسے درست نہیں سمجھتے تھے۔ ایک جلسہ میں جہاں شیخین موجود تھے ، کسی نے حضرت بہاولپوری سے سوال کیا کہ بھینس کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟ تو فرمایا: دریا سے اِس طرف جائز ہے، اُس طرف نہیں (جلالپور اور بہاولپور کے درمیان دریائے ستلج ہے)۔
آج ہمیں بھی اس دور میں دوسرے علما کرام کے موقف کو سپیس دینا ہو گی اور ان کے ساتھ اپنے اسلاف جیسا رویہ رکھنا چاہیے۔۔
کامران الہی ظہیر حفظہ اللہ
یہ بھی پڑھیں: آپ اپنا عمل کریں