“آپ اپنا عمل کریں”

“آپ سے دوسروں کا سوال ہوگا؟”
“علماء رد کیوں کرتے رہتے ہیں؟”
“اپنا عقیدہ/موقف چھوڑو نہیں، دوسرے کو چھیڑو نہیں”
یہ وہ سوالات ہیں جو ایک داعی الی الخیر کو عام طور پر لوگوں سے سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ کہ بھئی آپ اپنا عقیدہ بیان کردیں، اپنا موقف رکھ دیں اگر اس میں جان ہوگی تو لوگ خود ہی قبول کر لیں گے۔ دوسروں کے خلاف کیوں بولتے ہیں آپ؟؟ وغیرہ وغیرہ
کلمہ توحید اسلام کا دروازہ ہے۔ جس کے ذریعے اسلام میں انسان داخل ہوتا ہے۔ اس کلمے کو اگر دیکھا جائے تو اسی سے اس سوال کا بطلان ہوجاتا ہے۔ لا الہ الا اللہ۔ اس کی تشریح علماء نے یہ کی ہے کہ لا الہ تمام معبودان باطلہ کی نفی ہے اور إلا اللہ اکیلے اللہ کی عبادت کا اثبات ہے۔ جس طرح منسلک تصویر(کمنٹ میں) میں کلام موجود ہے کہ اکیلی نفی سے توحید مکمل نہیں ہوتی، اور نا ہی اکیلے اثبات سے توحید مکمل ہوتی ہے۔ بلکہ کلمہ کے دو ہی اجزاء ہیں، ایک نفی اور دوسرا اثبات، اور انہیں دونوں کے ملنے سے کلمہ مکمل ہوتا ہے، اور توحید مکمل ہوتی ہے۔
یہ بات اسلامی عقیدہ کی بنیادی ترین چیز، توحید، کے حوالے سے ہوئی۔ اب اگر اللہ تعالی کے دیے گئے احکام میں ہم دیکھیں تو یہی کیفیت ہمیں بار بار نظر آتی ہے۔ اللہ تعالی نے دعوت کے میدان میں بنیاد فراہم کی کہ:
“تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر” یا “امروا بالمعروف و نہو عن المنکر”۔
تو اس حکم میں بھی وہی بات کار فرما نظر آتی ہے کہ نیکی کا حکم اور برائی سے روکنا، دونوں ہی ضروری ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں:

“فمن یکفر بالطاغوت یومن باللہ فقد استمسك بالعروة الوثقى”

کہ جو طاغوت کا کفر کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، یہی ہے جس نے مضبوط کڑے کو ہاتھ ڈال لیا ہے۔
اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ کی احادیث میں بھی یہ چیز جاری و ساری دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين المهديين” کہ تم پر میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی دوسری حدیث میں فرما رہے ہیں کہ “من عمل عملا ليس عليه امرنا فهو رد” کہ جس نے ایسا کام کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تھا تو وہ عمل مردود ہے۔
اسی طریقے سے ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ ہر خطبے میں اس بات کا اعادہ کیا کرتے تھے کہ “خیر الهدي هدي محمد ﷺ…. وكل بدعة ضلالة” کہ سب سے بہترین طریقہ اللہ کے نبی ﷺ کا طریقہ ہے۔۔۔ اور ہر بدعت گمراہی ہے”
اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا:
سنن أبي داود

حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: ” مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ، فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ “.
الألباني: صحيح
صحيح سنن أبي داود: (140/3)

کہ جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ کے لیے ہی بغض رکھا، اللہ کے لیے ہی کسی کو کچھ دیا اور اللہ کے لیے ہی اپنا ہاتھ روکا تو بے شک اس نے ایمان کو مکمل کر لیا۔
اللہ اکبر!! ایمان کی تکمیل، نفی اور اثبات دونوں کے کو شامل ہے۔ محبت اللہ کے لیے تو بغض بھی اللہ کے لیے۔ عطاء اللہ کے لیے تو منع بھی اسی کے لیے۔
اس سب کے ساتھ ساتھ اگر ہم قرآن کے اسلوب پر نظر دوڑائیں تو بھی ہمیں یہی بات نظر آتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:
سورۃ الحجر
آیت نمبر: 49

نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

ترجمہ:
میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت ہی بخشنے والا اور بڑا مہربان ہوں۔
سورۃ الحجر
آیت نمبر: 50

وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ

ترجمہ:
ساتھ ہی میرے عذاب بھی نہایت دردناک ہیں۔
اللہ تعالٰی بھی ہومیوپیتھک سی خوشخبریاں سنا سکتے تھے کہ جو اچھا ہے میں اسے اچھا بدلہ دوں۔ برے سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ مگر دونوں چیزیں یکے بعد دیگرے بیان کیں۔ اور یہ چیز ایک آدھ دفعہ نہیں جا بجا قرآن میں اسی طرح ملتی ہے۔ چنانچہ فرمایا:
سورۃ البقرۃ
آیت نمبر: 81

بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ:
یقیناً جس نے برے کام کیے اور اس کی نافرمانیوں نے اسے گھیر لیا اور وہ ہمیشہ کے لئے جہنمی ہے۔
سورۃ البقرۃ
آیت نمبر: 82

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ:
اور جو لوگ ایمان لائیں اور نیک کام کریں وہ جنتی ہیں جو جنت میں ہمیشہ رہیں گے (١)۔
چنانچہ یہاں بھی برے کی سزا، اور اچھے کے اجر یعنی نفی اور اثبات دونوں متصلا بیان کیے۔
اسی طرح:
سورۃ البینۃ
آیت نمبر: 6

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ أُولَٰئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ

ترجمہ:
بیشک جو لوگ اہل کتاب میں سے کافر ہوئے اور مشرکین سب دوزخ کی آگ میں جائیں گے جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ لوگ بدترین خلائق ہیں (١)
سورۃ البینۃ
آیت نمبر: 7

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ

ترجمہ:
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے یہ لوگ بہترین خلائق ہیں (١)
اسی طرح اللہ کا فرمان ہے کہ:
سورۃ النحل
آیت نمبر: 36

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ ۚ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ

ترجمہ:
ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی (١) پس تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا؟
اس سے زیادہ صریح اور دو ٹوک الفاظ میں اور کیا دلیل ہو؟
اور کتنی ہی مثالیں اس قرآنی اسلوب پر بآسانی پیش کی جا سکتی ہیں۔
اسی طرح:
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 167

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۗ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ ۖ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ:
اور وہ وقت یاد کرنا چاہیے کہ آپ کے رب نے یہ بات بتلادی کہ وہ ان یہود پر قیامت تک ایسے شخص کو ضرور مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سزائے شدید کی تکلیف پہنچاتا رہے گا (١) بلاشبہ آپ کا رب جلدی ہی سزا دے دیتا ہے اور بلاشبہ وہ واقعی بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا ہے (٢)۔
یہاں بھی نفی اور اثبات دونوں ایک ساتھ ذکر فرما دیے۔
اب یہ بات تو طے ہو گئی کہ بھلائی، خیر، توحید، اسلام، ایمان یہ سب چیزیں نفی اور اثبات سے ہی مکمل ہوتی ہیں۔ تو مناسب ہے کہ اس کی چند مثالیں دیکھ لی جائیں تاکہ اس فکر کی کم مائیگی واضح ہو سکے۔ ابو جہل اور اس کے رفقاء اللہ کو رازق، خالق، وہاب، حتی کہ عبادت کے لائق یعنی معبود مانتے تھے، اس کے باوجود اللہ کے رسول ﷺ نے ان سے ج ہ ا د کیا۔ کیا اللہ کے رسول ﷺ کو ان کی یہ بھلائی نہیں پتہ تھی کہ یہ اللہ کو تمام امور کا مالک مان رہے ہیں تو انہیں معاف رکھا جائے، ان شاء اللہ سمجھ جائیں گے۔۔۔! ؟ اثبات تو وہ کر رہے تھے، مگر نبی ﷺ سے اختلاف کہاں تھا؟؟ اختلاف تھا تو کلمہ کے دوسرے حصے یعنی نفی کے نا ہونے کا اختلاف تھا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تمام لوگوں نے خلیفہ تسلیم کرلیا۔ تمام ارکان اسلام پر لوگ کاربند رہے۔ صرف زکاة دینے سے انکار کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے کیا فرمایا کہ باقی سب تو مان رہے ہیں ایک کی خیر ہے؟؟ نہیں بلکہ فرمایا کہ اگر یہ اللہ کے رسول ﷺ کو ایک رسی کا ٹکڑا بھی زکاة میں دیتے تھے اور مجھ سے انہوں نے اسے روکا تو میں ان کے خلاف ج ہ ا د کروں گا۔
اسی طرح اگر بدعت کے خلاف ہم اہل السنہ کا طرز عمل دیکھیں، تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ صحیح موقف کا برملا اظہار اور باطل موقف کی نفی ان کے طرز عمل کا حصہ تھی۔ امام احمد رحمہ اللہ نے خلق قرآن کے مسئلے پر کوڑے کھائے۔ طرح طرح کی تکالیف برداشت کیں۔ اگر صرف وہ باطل کے رد سے باز رہنے پر راضی ہوجاتے تو کیا خیال ہے بہت ساری اذیت سے بچ نا جاتے؟؟ مگر انہیں اس بات کا درک تھا کہ صحیح کو اپنانا اور باطل سے منع کرنا، مل کر ہی سنت کا احیاء مکمل ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عقیدے کی کتب میں جب اس مسئلے کو بیان کیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اہل السنہ قرآن کو اللہ کا کلام مانتے ہیں اور مخلوق نہیں مانتے، اور نا ہی اس بارے میں وقوف(سکوت) اختیار کرتے ہیں۔
اسی طرح:

وقال محمد بن بندار السباك الجرجاني: قلت لأحمد بن حنبل: إنه ليشتد عليّ أن أقول: فلان ضعيف فلان كذاب.
قال أحمد: إذا سكتَّ أنت وسكتُّ أنا فمتى يعرف الجاهل الصحيح من السقيم؟ !
الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي ٢/‏٢٠٢ — الخطيب البغدادي (ت ٤٦٣)

محمد بن بندار السباک الجرجانی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے کہا کہ یہ بات مجھ پر بڑی گراں گزرتی ہے کہ میں کسی کے بارے میں کہوں کہ وہ (حدیث میں)ضعیف ہے یا کذاب ہے۔ تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا اگر تم بھی (یہ سوچ کر) چپ ہو گئے، میں بھی (یہی سوچ کر) چپ ہو جاوں تو ایک جاہل(عامی) بندے کو صحیح اور کمزور حدیث کا پتہ کیسے چلے گا؟!
لہذا آج اگر کوئی ہمیں یہ سکھائے کہ آپ کفر و شرک، بدعات، فیمینزم، کمیونزم، اور جتنے نئے نئے شگوفے پھوٹ رہے ہیں، ان کا رد نہیں کریں، صرف اپنی بات اچھے انداز میں بیان کرتے جائیں تو بھائی نہیں، یہ دعوت کا مزاج نہیں ہے۔ یہ بات صرف سننے میں اچھی ہے کہ دوسرے کا رد نہیں کرو صرف اپنا بیان کرو۔ کیا یہ دوسری فکر والے جب اپنی بات بیان کر رہے ہیں تو اس میں صحیح بات کا رد خود بخود موجود نہیں ہے؟
بدعتی بندہ جب اپنی بدعت کا پرچار کر رہا ہے تو کیا اس میں سنت کا رد شامل نہیں ہے؟
کیا جو عورت باہر نکل کر اپنے خود ساختہ حقوق کی بات کر رہی ہے تو اس میں اسلام کے اسے چاردیواری میں رہنے کے حکم کا رد شامل نہیں ہے؟
تو یہ کہاں کا فلسفہ ہے کہ حق تو صرف آدھا بیان ہو جبکہ باطل کو مکمل چھوٹ ہو۔۔۔؟ یہ دراصل شیطان کی وحی ہے جو وہ اپنے ساتھیوں کو کرتا ہے کہ اس خوش نما نعرے کے ذریعے حق کو ڈھانپ لیا جائے۔ اور ہمارے یہاں لوگوں میں اس کو پذیرائی مل جاتی ہے۔
وما توفیقی إلا باللہ۔ علیہ توکلت والیہ انیب

حافظ نصر الله جاويد

المدينة المنورة

یہ بھی پڑھیں: فیک آئی ڈیز کا فتنہ، ایک تازہ مثال