سوال (587)

نو مولود کے سر کے بال کب اتاریں جائیں؟۔کیا وہ بال ناپاک ہوتے ہیں؟
اگر بچہ کمزور ہو یا کوئی مسئلہ ہو تو کیا تب بھی بال اتارنا ضروری ہیں؟

جواب

جب کوئی بچہ یا بچی پیدا ہو تو ساتویں دن کچھ کام کرنے ہوتے ہیں، تین کام تو مشترکہ ہیں:
1:عقیقہ کرنا
2:نام رکھنا ۔
3:حجامت یعنی سر کے بال اتارنا اور ان بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنا
یہ تین کام بچہ اور بچی دونوں کے لیے ہیں۔
ارشادِ نبوی ہے:

” كل غلام مرتهن بعقيقته، تذبح عنه يوم سابعه، ويسمى فيه، ويحلق رأسه”. [سنن الترمذي: 1522 وصححه الألباني في الإرواء: 4 / 385 ]

’ ہر بچہ عقیقے کےبدلے گروی ہوتا ہے جو ساتویں دن اس کی طرف سے ذبح کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے، اور سر کے بال اتارے جائیں‘۔
4۔ جبکہ چوتھا کام جو بچے کے لئے خاص ہے وہ اس کا ختنہ کرنا ہوتا ہے۔ اگر بچے کی صحت ٹھیک ہے تو ساتویں دن اس کا ختنہ کردیا جائے۔
صورتِ مسؤلہ میں اگر بچی کمزور ہے اور اس کے بال نہیں کاٹے جا سکتے تو بال کاٹنے میں تاخیر کی جا سکتی ہے، پھر بعد میں جب ممکن ہو اس وقت حجامت کردیں، اس میں کوئی حرج نہیں ، جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے :

“فَاتَّقُوا اللّٰهَ ماسْتَطَعْتُمْ”.[التغابن:16]

’پس جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو اور سنتے اور مانتے چلے جاؤ‘۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے:

“لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا”.[ البقرہ: 286]

’اللہ تعالی انسان کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا‘۔
جہاں تک یہ بات ہے کہ پیدائش کے بال ناپاک ہوتے ہیں یا نہیں، تو ایسی کوئی بات ہمارے علم میں نہیں ہے۔ واللہ اعلم

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ