سوال (2418)

کیا عورت کے لیے بغیر محرم عمرہ یا حج کرنا بالکل ہی ناجائز ہے؟ یا مع محرم مستحب ہے؟

جواب

عورت کے لیے حج یا عمرے میں محرم کا ہونا شرط ہے، یہ استطاعت میں شامل ہے، اگر یہ استطاعت نہیں ہے تو حج یا عمرہ نہیں ہے ، عورت کے لیے محرم کا نہ ہونا اس عورت کو غیر مستطیع بنادیتا ہے، یعنی وہ عورت تمام شرائط پر پوری نہیں اترتی ہے، لہذا محرم کا ہونا واجبی چیز ہے، یا بعض علماء کے ہاں شرط کے درجے میں ہے، باقی اگر اس نے لاعلمی کی وجہ سے ایسے کر لیا ہے تو حج یا عمرہ دونوں ہوگئے ہیں، یہ درجات کی کمی، وبال یا گناہ کا باعث ہے، یہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سوال: کیا عورت محرم کے بغیر عمرہ پہ جا سکتی ہے بعض لوگ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ ایک عورت حیرہ سے اکیلی چلے گی بے خوف ہوکر بیت اللہ کا سفر کرے گی۔ کیا یہ استدلال کرنا درست ہے؟

جواب: یقیناً ایک عام آدمی اس تحریر کو پڑھ کے پریشان ہو سکتا ہے، اس کے خیالات پراگندہ ہو سکتے ہیں، بات یہ ہے کہ جتنی بھی تاویلات کی جائیں یا تحریر میں جس قدر بھی وزن پیدا کرلیا جائے، لیکن شریعت کے جو فیصلے ہیں، اس میں ہمارے لیے بہتری ہے، وہ ہی اسلم و احکم ہے، بات بالکل واضح ہے، امن و امان کی بات بھی جناب اعلی نے تحریر میں کردی ہے، تو سوال یہ ہے کہ آج امن و امان، عورت کی پاکدامنی اور حفاظت کی کیا گارنٹی ہے، آج کل کے حالات سب کے سامنے ہیں، آج بھی وہی ہے کہ نہ امن و امان ہے، نہ عزت و آبرو کو حفاظت حاصل ہے، حالات سب کے سامنے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

میں اس میں اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں تھوڑا سا بیان کرنا چاہتا ہوں، شریعت نے جو عورت کو بغیر محرم کے سفر سے منع فرمایا ہے، اس کا صرف ایک پہلو نہیں ہے۔ ایک پہلو تو آپ نے بیان فرما دیا، لیکن ایک اور اہم پہلو ہے، جس پر ہم شاید توجہ نہیں دیتے، اور وہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں عورتیں مردوں کے مقابلے میں زیادہ بیمار اور جلد بیمار ہوتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے مرد کو عمومی طور پر مضبوط اعصاب عطا فرمائے ہیں، لہٰذا وہ زیادہ تکالیف برداشت کر لیتا ہے۔ جبکہ عورت “صنفِ نازک” ہے، ذرا سی طبیعت خراب ہو تو اسے زیادہ شدت سے محسوس ہوتا ہے، اور وہ اس کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔

سفر کے دوران طبیعت کا خراب ہونا کوئی بعید یا غیر معمولی بات نہیں ہے، اگر عورت کی طبیعت اچانک بگڑ جائے، تو ممکن ہے کہ ایسی حالت میں کوئی غیر محرم اسے سہارا دے یا ہاتھ لگائے، جس کی بعض لوگ مجبوری کے تحت اجازت تو دیتے ہیں، مگر اصل حل یہی ہے کہ اس کا راستہ ہی بند کر دیا جائے۔

یعنی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے،

عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے۔

اگر اس حکم پر عمل کیا جائے تو اس قسم کے مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے۔

میرا ذاتی تجربہ بھی اس بارے میں ہے:

یہ بات سن 2000 کی ہے، میرے والد محترم زخمی ہو گئے، مجھے پاکستان آنا پڑا۔ اس وقت مدینہ سے صرف کراچی کی براہِ راست پرواز ہوتی تھی(جبکہ اب ماشاء اللہ سیالکوٹ اور ملتان جیسے شہروں سے بھی براہِ راست پروازیں ہیں)۔ جب مدینہ سے جہاز نے پرواز بھری، تو راستے میں دمام پر قیام تھا۔ وہاں جہاز خراب ہو گیا اور 24 گھنٹے کے لیے رک گیا۔ مسافروں کو ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ لیکن ظاہر ہے، ہر مسافر کو الگ کمرہ دینا ممکن نہیں تھا، دو، تین یا چار مسافروں کو ایک کمرے میں رکھا گیا۔

اب آپ خود سوچئے:

اگر میری جگہ کوئی خاتون اکیلی ہوتی یا کوئی لڑکی ہوتی،

تو ایسی صورت میں کیا صورتحال بنتی؟

لہٰذا گزارش یہی ہے کہ شریعت کے احکامات اٹل اور سراسر درست ہیں،

اور کسی بھی خاتون کو، چاہے وہ کسی بھی عمر کی ہو ، بغیر محرم کے سفر نہیں کرنا چاہیے۔ والله أعلم بالصواب

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ