سوال (635)

اگر تو یہ جمہوریت عین اسلامی نظام ہے تو پھر تو قطعاً عورت حکمران نئیں بن سکتی ، جب یہ نظام ہی اسلامی خلافت سے الگ ھے یہ جمہوری نظام قطعی طور اسلامی نئیں ھے تو یہی جمہوری نظام عورت کو وزیراعلی یا وزیراعظم بننے کا حق دیتا ہے ،
اور پھر اس ملکی جمہوری نظام میں فرد واحد پاور فل نئیں ھے جسے یقیناً حکمران نئیں کہا یا مانا جا سکتا ماسوائے اسی تاویلی و تعارفی ناموں کے صدر وزیراعظم وزیراعلی وغیرہ
اور اگر یہ ملکی قوانین و آئین سے ماوراء فیصلہ کرتے ھیں تو وہ پارلیمنٹ کو جواب دہ ھیں اس جمہوری سسٹم میں اور پھر ایک اور بات ھے ملک کے مختلف شعبہ جات میں اگر ہیڈ عورت ھوسکتی ھے تو پھر یہ بھی تو وہی چیز ہے ، مثلا تھانہ نظام میں Sp اور ایس ایچ او اسی طرح میڈیکل میں کسی بھی ہسپتال کی سرباہ جسے MS بھی کہہ سکتے ہیں تعلیمی شعبہ جات میں چانسلر وائس چانسلر
پرنسپل ہیڈ مسٹرس وغیرہ ،باقی پھر بھی جماعت میں موجود شیوخ اس حوالے سے بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں اور یقیناً کریں گے بھی۔ واللہ اعلم ۔
اس تحریر میں عورت کی حکمرانی کو جائز قرار دیا گیا ہے کیا یہ درست ہے ؟

جواب

عورت عورتوں کی ذمہ دار ہو سکتی ہے، لیکن مجموعی طور پر کوئی بھی چھوٹی یا بڑی ذمہ داری خاتوں کو نہیں دی جا سکتی ہے، جس میں وہ مرد و عورت ہر ایک کی حاکم یا ذمہ دار ہو۔
سعودیہ میں جب یہ سلسلہ شروع ہوا تھا تو فضیلۃ الشیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ نے اس پر اعلانیہ نکیر کرتے ہوئے مقالات لکھے تھے، جن میں سے ایک عنوان یوں تھا:

“كارثة أخلاقية أخرى في تولية النساء على الرجال هي أنكى”

اس میں فرماتے ہیں:

وتعيين النساء في مناصب يكنَّ فيها مرجعا للرجال ليس من الوسطية والاعتدال، بل هو من الذوبان والانفلات، وهذا النوع المزعوم من الوسطية والاعتدال لا تعرفه هذه البلاد قبل عدة سنوات ولا يعرفه علماؤها الكبار كالشيخ محمد بن إبراهيم والشيخ عبدالعزيز بن باز والشيخ محمد بن عثمين رحمهم الله. جعل النساء في مناصب يتبعهن الرجال فيه تحقيق الاختلاط المذموم بين الرجال والنساء، ومن أوضح الأدلة على منع ذلك أن النساء في زمنه صلى الله عليه وسلم لم يكن يحضرن مجالس حديثه صلى الله عليه وسلم مع الرجال، فعن أبي سعيد رضي الله عنه قال: «جاءت امرأة إلى الرسول صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله ذهب الرجال بحديثك، فاجعل لنا من نفسك يوما نأتيك فيه تعلمنا مما علمك الله، فقال: اجتمعن في يوم كذا وكذا، فاجتمعن، فأتاهن رسول الله صلى الله عليه وسلم فعلمهن مما علمه الله»الحديث رواه البخاري (7310) ومسلم (6699)، ومما يدل على منع تولية النساء على الرجال قوله صلى الله عليه وسلم: «لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة» رواه البخاري (4425) وغيره، قال البغوي في شرح السنة (10/77): «اتفقوا على أنَّ المرأة لا تصلح أن تكون إماماً ولا قاضياً؛ لأنَّ الإمام يحتاج إلى الخروج لإقامة أمر الجهاد والقيام بأمور المسلمين، والقاضي يحتاج إلى البروز لفصل الخصومات، والمرأة عورة لا تصلح للبروز»، وقال ابن قدامة في المغني (14/13): «ولا تصلح للإمامة العظمى، ولا لتولية البلدان، ولهذا لم يول النبي صلى الله عليه وسلم ولا أحد من خلفائه ولا مَن بعدهم امرأة قضاءً ولا ولاية بلدٍ، فيما بلغنا، ولو جاز ذلك لم يَخلُ منه جميع الزمان غالباً»، وكانت وفاة ابن قدامة سنة (620هـ).

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ