بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر

بچوں اور جنونیوں کے ہاتھ میں آئی کوئی چیز کب بچتی ہے؟پاگل کو چیزوں کی اہمیت کا کیا پتہ۔ چنانچہ گرا دی بابری مسجد،شہید کر دی تاریخ،کھود دیا مقبرہ اک تاریخ اور تہذیب کا۔ بابری مسجد کی شہادت سے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں پر وار کیا تو کتنا غلط سمجھتے ہیں یہ،مسلم کیلے تو مندر،معبد، مسجد کے بغیر بھی دین پر عمل ممکن ہے،ساری زمین اس دین میں مسجد اور سجدہ گاہ ہے،یہ وار تو تم نے اپنی زمین کی کوکھ پر کیا، گاندھی کے وچار اور سیکولرازم کی دھار پر کیا،اچھا اٹھو اور گرا دو تاج محل بھی،پھاڑ دو اپنی تاریخ سے وہ نام اور کام جن میں کوئی مسلم نام آئے، دھرتی سے نکال دو،محمد کے نام لیواؤں کو۔آج تمھارے ہاتھ طاقت جو لگ گئی تو بدلہ لو ان مغلوں سے جنھوں نے اپنی طاقت کے عروج میں تمھیں پناہ دی،تمھیں ہی نہیں تمھاری پوری تہذیب اور تاریخ کو تحفظو امان بخشا،طاقت انھیں بھی ملی تھی،تم سے کہیں زیادہ اور کہیں وسیع، وہ آج کے کئی ملکوں کے تاج ور تھے، وہ مگر تعمیر آشنا تھے اور تم تخریب کے خوگر ہو،انھوں نے تمھارے بنجر ویرانوں کو تاریخ کر دیا،یہاں تاج محل بنائے،ایسی مساجد بنائیں کہ جو تاریخ ہو گئیں، تمھیں دنیا میں نام اور پہچان دی، وہ خوشبو بانٹتے رہے کہ وہ عطار تھے، انھوں نے تمھیں اپنے ڈھب پر جینے دیا،تمھاری تاریخ اور تہذیب کو سانس لینے دیا،وہ تو بلکہ تمھارے لئے آکسیجن فراہم کرتے رہے،باغباں بن کے تمھارے چمنستانوں کی آبیاری کرتے رہے،وہ اگر تمھاری طرح اندھی طاقت میں چور ہوتے تو آج ایسے ہاتھ اس دھرتی پر نہ ملتے جو بابری مسجد گرا اور اس کی لاش پر رام مندر اٹھا سکتے،وہ تو مسلمان بھی سچے ظرف والے نکلے اور تم تو سیکولر بھی جھوٹے اور فراڈ نکلے۔آج سارے فلمی ستارے رام مندر کی تعمیر میں آئے بیٹھے ہیں۔حیرت ہے،ان کے آنے کا بھلا کیا جواز تھا۔کیا ان میں کوئی ایک بھی زندہ ضمیر نہ رکھتا تھا۔جانتے نہ تھے کہ یہ مندر کہاں ہے،یہ تو قبر ہے، اس ملک کے آئین کی،سیکولرازم کے دعوے کی اور قبرستان ہے،ایک پوری تہذیب اور تاریخ کا۔بے وقوف یہ نہیں جانتے کہ طاقت دائمی کب ہوتی ہے؟ یہ تو ڈھلتا سایہ،گرتی دیوار اور بجھتا چراغ ہوتا ہے۔ چنانچہ جس توڑ پھوڑ کی یہ طرح آج اپنے اندھے دور کی جھونک میں رکھ رہے ہیں،کل جب یہ ناطاقتی کے مرحلے میں ہوں گے تو کیا کوئی اور طاقت ور یہ نہ کرسکے گا اور اگر یہی چلن عام ہوتا جائے گا تو اس دھرتی پر انسانی تاریخ اور تہذیب کا کیا نشاں باقی بچے گا؟ خیر یہ باتیں تو عقل و شعور والوں کے لیے ہوتی ہیں،انسانیت کا درد رکھنے والوں اور دل کی بصیرت رکھنے والوں کیلئے ہوتی ہیں۔ مجھے حیرت انسانیت کے ان نوحہ خوانوں پر بھی ہے،جو مسلمانوں پر اپنی تہذیب و تاریخ پر عمل کرتے وقت بھی آسمان سر پر اٹھائے رکھتے ہیں اور یہاں طاقت کے بل پر ایک پوری تاریخ اپنے جنون کی نذر کر دینے والوں کی حیوانیت و درندگی پر انھوں نے شربت سکوں پی لیا ہے۔

#یوسف_سراج

یہ بھی پڑھیں: فرنگی بت کدے کے پنڈت