سوال (353)

میرے ماموں کی چار بیٹیاں ہیں، بیٹا کوئی نہیں، ان کے بھتیجے ہیں، ان کا سوال ہے کہ میری بیٹیوں کو دو تہائی مل کر باقی میرے بھتیجوں کا ہوگا، تو کیا پینشن وغیرہ بھی اس میں شامل ہو گی ؟ اور اگر وہ اپنے بھتیجوں کو نہیں دینا چاہتے تو کیا ساری جائیداد بیٹیوں کے نام ہبہ کر سکتے ہیں؟

جواب

مذکورہ شخص کی وفات کے بعد اگر ان کے ورثاء میں ان کی بیٹیاں اور بھتیجیے ہی ہوں، تو ان کی تقسیم ایسی ہے، جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ دو تہائی ان کی بیٹیوں کو مل جائے گا، اور باقی جو ایک تہائی بچے گا وہ ان کے بھتیجوں کو ملے گا ۔ باقی شاید وہ پینشن کی بات کر رہے ہیں، اگر تو وہ پینشن مخصوص رشتہ داروں یعنی بیوی، ماں یا بیٹے بیٹیوں کے لیے ہی جاری ہوتی ہے، تو پھر وہ صرف بیٹیوں کا ہی حق ہے، اس کو بطور وراثت تقسیم نہیں کیا جائے گا، اور اگر وہ اس بزرگ کے تمام ورثاء کے لیے ہے، تو پھر یہ بھی بقیہ وراثت کی طرح سب میں تقسیم ہوگی.. واللہ اعلم!
اسی طرح ہبہ کرنا تو جائز ہے، لیکن کسی کو وراثت سے محروم کرنے کی نیت سے کسی دوسرے کو ہبہ کرنا یہ درست نہیں!
اگر اس کے بھیتجے رضا مند ہو جائیں تو پھر ہبہ کی صورت ساری جائیداد بیٹیوں کو دینے کی گنجائش ہے!
لیکن جب ساری جائیداد بیٹیوں کو دے دی، تو یہ بابا جی خود کیا کریں گے؟ عین ممکن ہے ان کی بیٹیاں بعد میں انہیں سنبھالنے سے انکار کر دیں، بالخصوص اگر وہ شادی شدہ ہیں، تو ان کے سسرال کی طرف جائیداد ہڑپ کرنے کے بعد بابا جی کے لیے مشکلات پیش آئیں.
اس کی کچھ عملی مثالیں، ہم نے دیکھی بھی ہیں، لہذا ان سب پہلووں کو سامنے رکھا جائے!!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ