سوال (284)

میرا سوال وراثت سے متعلق ہے کہ اگر کسی کی چار بیٹیاں ہیں اور کوئی بیٹا نہیں ہے تو وہ اپنی ساری جائیداد کا وارث کیسے اپنی بیٹیوں کو بنائے گا اور اس میں ماں باپ کا کتنا حصہ ہوگا اور بیوی کا کتنا ہوگا پلیز تفصیل سے بیان کر دیں۔

جواب:

كوئی بھی شخص اپنی زندگی میں اپنی وراثت تقسیم نہیں کر سکتا، کیونکہ وراثت کے احکام کسی بھی شخص کی وفات کے بعد لاگو ہوتے ہیں۔
قرآنِ کریم میں اس کے لیے “ماترک” کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اور یہ کیفیت وفات کے بعد ہوتی ہے۔ زندگی میں تو وہ اس جائیداد کا مالک ہوتا ہے۔ ہاں اگر والد کو خطرہ ہو کہ میرے مرنے کے بعد ورثا آپس میں جائداد کی تقسیم پر جھگڑا کریں گے، تو اس کا حل یہ ہے وہ کسی کو مختار خاص بنا دے۔ اس کو یہ وصیت کرے کہ میرے مرنے کے بعد میری جائیداد کو میرے ورثاء میں حسبِ حصص شرعی تقسیم کردے۔
زندگی میں جائیداد دینے کا نقصان یہ ہے، کہ اگر کوئی بچہ باپ کی زندگی میں ہی فوت ہو جائے، تو وہ جائیداد تو لے چکا ہوتا ہے، حالانکہ وہ اس کا حقدار نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی زندگی میں جائیداد تقسیم کر دیتا ہے، پھر اس کے ہاں کوئی اور بچہ پیدا ہوتا ہے، تو وہ بچہ اس جائیداد سے محروم ہو جائے گا۔
بہر صورت مذکورہ شخص کی وفات کے بعد اس کے ذکر کردہ ورثاء کو درج ذیل حساب سے وراثت ملے گی:
بیوی کو آٹھواں حصہ، بیٹیوں کو دو تہائی حصہ، اور والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ۔
سمجھنے کے لیے اس کی وراثت کے کل 27 حصے کرلیں: بیوی کو تین دے دیں، بیٹیوں میں سے ہر ایک کو چار چار دے دیں، اسی طرح ماں اور باپ میں سے ہر ایک کو بھی چار چار ہی آئیں گے۔
تقسیمِ وراثت کے لیے وضع کردہ اصولوں کے مطابق اس مسئلے کو “عائلۃ” کہتے ہیں۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ