سوال (523)

«اللَّهُمَّ إِنِّيْ اجْتَهَدْتُ أَنْ أَؤدِّبَ ابنِی، فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَى تَأَدِيْبِهِ، فَأَدِّبْهُ أَنْتَ لِي»

اس دعا کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

جیسا کہ ذکر ہے کہ یہ دعا معروف امام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ اپنے بیٹے علی کے لیے مانگا کرتے تھے، فضیل کے الفاظ یہ ہیں:

«اللَّهُمَّ إِنِّيْ اجْتَهَدْتُ أَنْ أَؤدِّبَ عَلِيّاً، فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَى تَأَدِيْبِهِ، فَأَدِّبْهُ أَنْتَ لِي». [سير أعلام النبلاء 8/ 445 ط الرسالة]

’اے اللہ میں نے علی کی بہترین تربیت کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن میں کما حقہ کامیاب نہیں ہو پایا، لہذا میری طرف سے تو اس کی تربیت فرما’۔
اس میں ’علیا’ کی جگہ اپنے بیٹے بیٹی کا نام لیا جا سکتا ہے، یا پھر ویسے ہی وہاں ’ابنی’، ’بنتی’ کے الفاظ لگا کر دعا مانگی جا سکتی ہے۔
شیخ بکر بکر ابو زید رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ ایسی دعا جو مسنون و ماثور نہ ہو، لیکن اس میں پانچ شرائط پائی جائیں، تو اسے مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے، وہ شرائط یہ ہیں:

1 – أن يتخير من الألفاظ أحسَنَها وأبْيَنَها؛ لأنه مقام مناجاة العبد لربه ومعبوده سبحانه وتعالى.
2 – أن تكون الألفاظ على وفق المعنى العربي.
3 – أن يكون الدعاء خاليًا من أي محذور شرعي، كالاستغاثة بغير الله، ونحو ذلك.
4 – أن يكون في باب الذكر والدعاء المطلق فلا يقيد بزمان أو حال أو مكان.
5 – أن لا يتخذ ذلك سنة يواظب عليها

یعنی دعا میں بہترین الفاظ کا انتخاب کیا جائے، ان کا معنی و مفہوم درست ہو، دعا شرک و بدعت وغیرہ جیسی شرعی قباحتوں سے خالی ہو، عمومی دعا ہو، کسی وقت، جگہ یا موقعے کے ساتھ خاص نہ کی جائے اور سب سے آخری بات اسے سنت اور مستحب کا درجہ دے کر اس کی پابندی نہ کی جائے۔ [تصحيح الدعاء ص42،43]
فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کی اپنے بیٹے کے لیے دعا چونکہ ان پانچ شرائط پر پورا اترتی ہے، لہذا اسے مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
فضيل بن عياض اور ان كے صاحبزادے علی دونوں ہی متقی زاہد اور اولیاء اللہ میں شمار ہوتے تھے، علی اپنے والد محترم سے پہلے وفات پا گئے تھے۔ ان کے زہد و ورع کی ایمان افروز داستانیں حلیۃ الاولیاء اور سیر اعلام النبلاء وغیرہ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ