سوال (613)

“تعريف الفراسة”
قال صاحب المنازل رحمه الله :
الفراسة : استئناس حكم غيب
والاستئناس : استفعال من آنست كذا ، إذا رأيته. فإن أدركت بهذا الاستئناس حكم غيب: كان فراسة. وإن كان بالعين : كان رؤية. وإن كان بغيرها من المدارك : فيحسبها .
قوله “من غير استدلال بشاهده”
هذا الاستدلال بالشاهد على الغائب : أمر مشترك بين البر والفاجر، والمؤمن والكافر كالاستدلال بالبروق والرعود على الأمطار، وكاستدلال رؤساء البحر بالكدر الذي يبدو لهم في جانب الأفق على ريح عاصف. ونحو ذلك وكاستدلال الطبيب بالسحنة والتفسرة على حال المريض .
ويدق ذلك حتى يبلغ إلى حد يعجز عنه أكثر الأذهان وكما يستدل بسيرة الرجل وسيرۃ على عاقبة أمره في الدنيا من خير أو شر. فيطابق، أو يكاد۔
فهذا خارج عن الفراسة التي تتكلم فيها هذه الطائفة. وهو نوع فراسة، لكنها غير فراستهم. وكذلك ما علم بالتجربة من مسائل الطب والصناعات والفلاحة وغيرها . والله أعلم .

اس پوری تحریر کا ترجمہ لفظ بلفظ کرنے کی التماس ہے ؟

جواب

یہ مدارج السالکین لابن القیم کا اقتباس ہے، جس میں آپ نے منازل السائرین للهروي سے بہ کثرت نقل کیا ہے، بلکہ ’مدارج‘ کی بنیاد ہی ’منازل‘ کو بنایا ہے، اگرچہ کسی جگہ صراحت نہیں کہ میں منازل السائرین کی شرح لکھ رہا ہوں، لیکن دیگر اہل علم نے یہی وضاحت فرمائی ہے اور کتاب کا مضمون بھی اس پر شاہد ہے، جیسا کہ اس مقام سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ شيخ الاسلام ابو اسماعيل الهروي رحمه الله کی ایک عبارت

(الفراسة: استئناسُ حكمِ غيبٍ من غيرِ استدلالٍ بشاهدٍ)

کی وضاحت فرمات رہے ہیں۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

قال صاحب «المنازل» رحمه الله: (الفراسة: استئناسُ حكمِ غيبٍ).
والاستئناس: استفعالٌ من آنستُ كذا، إذا رأيتَه. فإن أدركتَ بهذا الاستئناس حكمَ غيبٍ كان فراسةً. وإن كان بالعين كان رؤيةً، وإن كان بغيرها من المدارك فبحسَبِها.
قوله: (من غيرِ استدلالٍ بشاهدٍ).
الاستدلال بالشّاهد على الغائب أمرٌ مشتركٌ بين البرِّ والفاجر، والمؤمن والكافر، كالاستدلال بالبروق والرُّعود على الأمطار، وكاستدلال رؤساء البحر بالكَدَر الذي يبدو لهم في جانب الأفق على ريحٍ عاصفٍ ونحو ذلك، وكاستدلال الطّبيب بالسَّحْنَة والتَّفْسِرة على حال المريض، ويَدِقُّ ذلك حتّى يبلغ إلى حدٍّ يَعجِز عنه أكثرُ الأذهان. وكما يُستدلُّ بسيرة الرّجل وسيره على عاقبة أمره في الدُّنيا من خيرٍ أو شرٍّ، فيطابق أو يكاد.
فهذا خارجٌ عن الفراسة التي تتكلّم فيها هذه الطّائفة. وهو نوعُ فراسةٍ لكنّها غير فراستهم، وكذلك ما عُلِم بالتّجربة من مسائل الطِّبِّ والصِّناعات والفلاحة وغيرها.
[مدارج السالكين 3/ 312 ط عطاءات العلم]

’فراست کی تعریف کا بیان. صاحب ’منازل’ فرماتے ہیں:

(الفراسة: استئناسُ حكمِ غيبٍ)

فراست سے مراد کسی غیر موجود چیز کو محسوس کر لینا.
اس میں ’استیناس’ آنست سے باب استفعال ہے، استیناس کے ذریعے کسی حکم کو معلوم کرنا فراست کہلاتا ہے، جیسا کہ آنکھ کے ذریعے کسی چيز کو معلوم کرنا ’رؤیت’ کہلاتا ہے.۔.
ہروی نے (من غيرِ استدلالٍ بشاهدٍ)
’بغیر کسی ظاہری چیز پر قیاس کیے‘۔
کی قید اس وجہ سے لگائی کیونکہ موجود سے غائب پر استدلال یہ نیک وبد، مؤمن و کافر سب کے لیے ممکن ہے۔ جیسا کہ آسمانوں کی گرج چمک سے بارش کے نزول کا پتہ چلانا، جیسا کہ سمندری سفر کے ماہرین کا دور افق میں فضا کا گدلے پن سے آندھی اور طوفان کا اندازہ لگانا، اسی طرح طبیب کا مریض کی ظاہری ہیئت و حالت یا قارورہ دیکھ کر اس کی بیماری کا پتہ چلانا، اور یہ استدلال اور قیاس بعض دفعہ اس قدر پیچیدہ ہوتا ہے کہ اکثر لوگ اسے کو سامنے سے عاجز ہوتے ہیں، جیسا کہ کسی انسان کی حرکتیں اور اخلاق دیکھ کر اس کے اچھے یا برے مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی جاتی ہے تو عین وہی کچھ یا اس کے قریب قریب ہی ہوتا ہے۔
اسی طرح طب، حرفت و صناعت اور زراعت وغیرہ سب تجرباتی چیزیں بھی فراست میں آتی ہیں، لیکن احسان و سلوک میں فراست سے مراد اس سے مختلف ہے’۔
یہ اس عبارت کا ترجمہ ہے۔
ویسے اس طرح کی کتابیں اور عبارات کے حوالے سے درست طریقہ یہ ہے کہ انہیں براہ راست اساتذہ سے پڑھ کر سمجھا جائے!
کیونکہ عبارت کی تفہیم اور ترجمانی دو الگ الگ چيزیں ہیں۔ کیونکہ محض ترجمہ سے بات سمجھ نہیں آتی اور اگر کما حقہ تفہیم پر توجہ دی جائے تو ترجمہ یا ترجمانی کی حدود سے تجاوز ہو کر انسان شرح و بسط میں داخل ہو جاتا ہے۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ