سوال (674)

شیخ صاحب کیا محدثین کے نزدیک حسن لغیرہ حجت رہی ہے اور شیخ البانی رحمہ اللہ کے علاوہ کس کس محدث نے اسے حجت قرار دیا ہے؟

جواب

سوائے چند معاصرین کے، تمام محدثین کے ہاں ہی حسن لغیرہ قابل حجت ہے، ہمارے علم کے مطابق کسی ایک محدث سے بھی اس کے انکار یا عدم حجیت سے متعلق واضح قول ثابت نہیں ہے۔
البتہ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ حسن لغیرہ چونکہ وہ ضعیف حدیث ہوتی ہے، جو متابعات و شواہد کی بنا پر حسن قرار دی جاتی ہے، اس لیے اس سلسلے میں وہ قواعد و ضوابط مدنظر رہنے چاہییں، جن کے مطابق یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کون سا ضعف قابل انجبار ہے اور کون سا نہیں؟ کیونکہ یہ بات طے ہے کہ ہر ضعف قابل انجبار اور ہر ضعیف حدیث حسن لغیرہ نہیں ہوتی۔
اسی طرح یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جس طرح احادیث کی تصحیح و تضعیف میں اہل علم میں اختلاف رائے ہو جاتا ہے، اسی طرح ان کی تحسین بھی یہ اختلاف موجود ہے، لیکن اس کا یہ مطلب قطعا نہیں کہ کوئی محدث حسن لغیرہ کی حجیت کا قائل نہیں، بالکل اسی طرح جس طرح اگر کوئی کسی صحیح حدیث کو ضعیف قرار دے تو ہم یہ نہیں سکتے کہ وہ صحیح حدیث کی حجیت کا قائل نہیں!
محدثین اور فن حدیث کو سمجھنے والوں کے ہاں یہ بات بہت واضح اور نمایاں ہوتی ہیں، اس لیے وہ اپنی تخریجات، احکام اور تعاملات میں ان کا خیال رکھتے ہیں، اگرچہ الفاظ میں اس کی صراحت کریں یا نہ کریں!
بطور مثال کچھ حوالے ذکر کیے جاتے ہیں۔ امام ابن خزیمہ(ت311ھ) ایک حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

“ابن لهيعة ليس ممن أخرج حديثه في هذا الكتاب إذا تفرد برواية، وإنما أخرجت هذا الخبر؛ لأن جابر بن إسماعيل معه في الإسناد”. (صحيح ابن خزيمة (1/ 75)( 146)

جابر بن إسماعیل الحضرمی راوی حافظ ابن حجر کے مطابق ’مقبول حیث یتابع وإلا فلین الحدیث‘ ہے۔
گویا دونوں انفرادی طور پر قابل حجت نہیں، لیکن دونوں کو ملاکر ابن خزیمہ حدیث کو اپنی ’صحیح‘ میں لے آئے ہیں۔
امام بیہقی جمع بین الصلاتین کے متعلق متعدد احادیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

“أبو قتادة العدوي أدرك عمر رضي الله عنه، فإن كان شهده كتب فهو موصول، وإلا فهو إذا انضم إلى الأول صار قويا، وقد روي فيه حديث موصول عن النبي صلى الله عليه وسلم في إسناده من لا يحتج به”. (السنن الكبرى (3/ 240)( 5560)

گویا ضعیف اور مرسل کو ملاکر ’ قابل تقویت‘ بلکہ ’ قوی‘ قرار دیا ہے۔
ایک اور اسناد میں راوی کی تضعیف بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

“إلا أن شواهده تقويه”(السنن الکبری(6/ 361)( 12243)

ایک اور جگہ مختلف احادیث بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

“ورواية أبي هريرة، وأبي سعيد في إسنادهما من لا يحتج به، ولكنها إذا انضمت إلى رواية أبي قتادة أخذت بعض القوة. “(معرفة السنن والآثار (3/ 438)

ابن عبد البر(ت463ھ) ایک راوی الحکم بن عبد الملک کی حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:

“والحكم هذا ضعيف عنده مناكير لا يحتج به ولكن فيما تقدم ما يعضد هذا.” (التمهيد (23/ 410)

لیکن صرف تعامل کی بجائے متقدمین سے لیکر متاخرین تک کئی ایک اہل علم کے ہاں ایسی عبارات بصراحت بھی ملتی ہیں، جو حسن لغیرہ کی حجیت پر دلالت کرتی ہیں، مثلا:
امام سفیان ثوری (ت161ھ) فرماتے ہیں:

“إني لأكتب الحديث على ثلاثة وجوه: فمنه ما أتدين به، ومنه ما أعتبر به ومنه ما أكتبه لأعرفه “. (الجامع لأخلاق الراوي (2/ 193)

ہمارے نزدیک یہاں بیان کردہ احادیث کی دوسری قسم وہی ہے، جنہیں حسن لغیرہ کہا جاتاہے۔
سفیان بن عیینہ(ت198ھ) ایک حدیث روایت کرنے کے بعد، جس کی سند میں ایک راوی مجہول ہے، فرماتے ہیں:

“ولم نجد شيئا يشد هذا الحديث ولم يجئ إلا من هذا الوجه”.

اور یہی منہج انہوں نے اپنے شیخ اسماعیل بن امیہ(ت144ھ) سے نقل کیا، سفیان کہتے ہیں: إسماعیل بن أمیہ کہا کرتے تھے:”عندكم شيء تشدونه به؟”. (السنن الكبرى للبيهقي (2/ 384)
شيخ كا پوچھنا کہ اس حدیث کی تقویت ہوسکتی ہے؟ شاگرد کا کہنا کہ کچھ نہیں ملا، یہ حسن لغیرہ والے منہج پر دلالت کناں ہے۔
امام احمد بن حنبل(ت241ھ) كا مشہور مقولہ ہے:

“الحديث عن الضعفاء قد يحتاج إليه في وقت والمنكر أبدا منكر”. (العلل رواية المروذي وغيره ت صبحي السامرائي (ص: 120)

امام احمد کا یہ مقولہ اس بات میں بالکل واضح ہے کہ ضعیف اور منکر میں فرق ہے، منکر تو ہمیشہ منکر ہوتی ہے، اگر ضعیف بھی ہمیشہ منکر کی مانند ہی ہو، تو کہنا چاہیے تھا کہ منکر وضعیف ہمیشہ منکر وضعیف ہی رہتی ہے۔
بلکہ ایک اور جگہ پر امام صاحب کا کلام اس منہج کے متعلق بالکل واضح ہے، فرماتے ہیں:

“ما حديث ابن لهيعة بحجة وإني لأكتب كثيرا مما أكتب أعتبر به ويقوي بعضه بعضا”. (الجامع للخطیب(2/ 193)

شيخ الإسلام ابن تیمیہ (ت728ھ) فرماتے ہیں:

“إن تعدد الطرق مع عدم التشاعر أو الاتفاق في العادة، يوجب العلم بمضمون المنقول، لكن هذا ينتفع به كثيرا في علم أحوال الناقلين. وفي مثل هذا ينتفع برواية المجهول والسيئ الحفظ، وبالحديث المرسل ونحو ذلك؛ ولهذا كان أهل العلم يكتبون مثل هذه الأحاديث، ويقولون: إنه يصلح للشواهد والاعتبار ما لا يصلح لغيره. قال أحمد: قد أكتب حديث الرجل لأعتبره، ومثل هذا بعبد الله بن لَهِيعة قاضي مصر؛ فإنه كان من أكثر الناس حديثا ومن خيار الناس، لكن بسبب احتراق كتبه وقع في حديثه المتأخر غلط، فصار يعتبر بذلك ويستشهد به”. (مقدمة في أصول التفسير (ص: 29)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

“الحديثان إذا كان فيهما ضعف قليل مثل أن يكون ضعفهما إنما هو من جهة سوء الحفظ ونحو ذلك، إذا كانا من طريقين مختلفين عضد أحدهما الآخر، فكان في ذلك دليل على أن للحديث أصلا محفوظا عن النبي – صلى الله عليه وسلم –”.(الفتاوى الكبرى لابن تيمية (6/ 241)

ابن تیمیہ کی عبارت میں جس چیز کو منہج محدثین بتایا گیا ہے، اسی کا نام حسن لغیرہ ہے۔
یہاں ابن قیم (ت751ھ) کا ایک اقتباس بھی مفید رہےگا، جس میں امام احمد کے منہج کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“وليس الضعيف في اصطلاحه هو الضعيف في اصطلاح المتأخرين، بل هو والمتقدمون يُقسِّمون الحديث إلى صحيح وضعيف، والحسن عندهم داخل في الضعيف بحسب مراتبه.وأوَّل من عُرِف عنه أنه قسمه إلى ثلاثة أقسام أبو عيسى الترمذي، ثم الناس تبعٌ له بعد ، فأحمد يقدِّم الضعيف – الذي هو حسنٌ عنده – على القياس، ولا يلتفت إلى الضعيف الواهي الذي لا يقوم به حجَّة، بل يُنْكر على مَن احتجَّ به وذهب إليه”. (الفروسية المحمدية ط عالم الفوائد (1/ 203)

حافظ ذہبی (ت748ھ) حدیث کی مختلف اقسام بیان کرتے ہوئے، لکھتے ہیں:

“ثم يليه ما كان إسناده صالحا، وقبله العلماء لمجيئه من وجهين لينين فصاعدا، يعضد كل إسناد منهما الآخر”. (سير أعلام النبلاء ط الرسالة (13/ 214)

سخاوی ایک جگہ تضعیف حدیث میں جلد بازی سے روکتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں:

“(وإن تجد متنا) أي: حديثا (ضعيف السند فقل) فيه: هو (ضعيف أي: بهذا) السند بخصوصه (فاقصد) أي: انو ذاك، فإن صرحت به فأولى (ولا تضعف) ذلك المتن (مطلقا بناء) بالمد (على) ضعف ذاك (الطريق إذ لعلـ) ـه (جاء) بالمد أيضا (بسند) آخر (مجود) يثبت المتن بمثله أو بمجموعهما.” (فتح المغيث (1/ 347)

یہاں بصراحت حدیث کو فورا ضعیف کہنے سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ وہ دیگر متابعات و شواہد کی بنا پر ضعیف سے نکل کر ’ثابت‘ کے درجہ میں آسکتی ہے۔
متقدمین سے لیکر متاخرین تک صراحت کے ساتھ حسن لغیرہ کی تعریف سے متعلق بھی اہل علم کا کلام موجود ہے، مثلا امام ترمذی (ت279ھ) فرماتے ہیں:

“كل حَدِيث يرْوى لَا يكون فِي إِسْنَاده من يتهم بِالْكَذِبِ وَلَا يكون الحَدِيث شاذا ويروى من غير وَجه نَحْو ذَاك فَهُوَ عندنَا حَدِيث حسن”. (العلل الصغير للترمذي (ص: 758)(وانظر: سنن الترمذي(5/758)

ابن الصلاح (ت643ھ) نے امام ترمذی کی اس تعریف کو حسن لغیرہ کی تعریف قرار دیا ہے۔( علوم الحدیث لہ(ص: 30)
ابن الصلاح کی کتاب کے شارحین و مستدرکین نے بھی اس بات سے اتفاق کیا ہے، گو اس تعریف کی شرح و وضاحت میں تعقبات و استدراکات موجود ہیں۔
امام نووی (ت676ھ) حسن کے متعلق ترمذی و ابن الصلاح وغیرہ کی عبارات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

“الحسن وإن كان دون الصحيح على ما تقدم من حديهما. فهو كالصحيح في أنه يحتج به. ولهذا لم تفرده طائفة من أهل الحديث، بل جعلوه مندرجًا في نوع الصحيح”. (إرشاد طلاب الحقائق (1/ 141)

پھر حسن لغیرہ کے متعلق ایک اعتراض کی وضاحت یوں کرتے ہیں:

“قد یقال: نجد أحاديث محكومًا بضعفها مع أنها مروية من وجوه كثيرة كحديث الأذنان من الرأس وكراهةالماءالمشمس فهلا انجبر بعضها ببعض فصارت حسانًا كما تقدم في حده؟ والجواب: أنه ليس كل ضعف يزول بمجيء الحديث من وجوه، بل ما كان ضعفه لضعف حفظ راويه الصدوق الأمين زال بمجيئه من وجه آخر لدلالة ذلك على عدم اختلال ضبطه وكذا إذا كان الضعف لكونه مرسلًا زال بمجيئه من وجه آخر إما مسندًا وإما مرسلًا كما سيأتي في بابه إن شاء الله تعالى ووجهه ما ذكرناه. وأما إذا كان الضعف لكون الراوي متهمًا بالكذب أو فاسقًا فلا ينجبر ذلك بمجيئه من وجه آخر”. (إرشاد الطلاب(1/ 146۔148)

بقاعی (ت885ھ) اپنے شیخ ابن حجر (ت852ھ) سے اس تعریف کی شرح کے متعلق نقل کرتے ہیں:

“قال شيخنا: (والترمذيُّ عرَّفَ الحسنَ لغيرهِ، وادّعاءُ ابنِ المواقِ أنَّهُ لم يميزْ، ممنوعٌ، فإنهُ ميّزهُ بشيئينِ: أحدهما: أنْ يكونَ راويهِ قاصراً عن درجةِ راوي الصحيحِ، بل عن درجةِ راوي الحسنِ لذاته، وهو أنْ يكونَ غيرَ متهمٍ بالكذبِ، فيدخلَ فيهِ المستورُ والمجهولُ، ونحو ذلكَ. وراوي الصحيحِ لا بدَّ وأنْ يكونَ ثقةً، وراوي الحسنِ لذاتهِ لا بدَّ وأنْ يكونَ موصوفاً بالضبطِ، ولا يكفي كونهُ غيرَ متهمٍ بالكذبِ، وقد ذكرَ هذا ابنُ المواقِ في نفسِ اعتراضهِ بقولهِ: بل ثقاتٍ، ولم يُتنبهْ له، فإنَّ الترمذيَّ لم يعدلْ عن قوله: (ثقات) وهي كلمةٌ واحدة إلى قولهِ: (لا يكونُ في إسنادهِ من يتهمُ بالكذبِ) إلا لإرادةِ قصورِ رواتهِ عن وصفِ الثقةِ، كما هي عادةُ البلغاءِ في المخاطباتِ”.(النكت الوفية بما في شرح الألفية (1/ 224،225)

حافظ ابن حجر (ت852ھ) نے حسن لغیرہ کی بذات خود تعریف یوں فرمائی ہے:

“ومتى تُوبعَ السيءُ الحفظ بمُعْتَبَرٍ،كأَنْ يكونَ فَوْقَهُ، أو مِثلَهُ، لا دونه،وكذا المختلِط الذي لم يتميز، والمستور، والإِسنادُ المُرْسَلُ، وكذا المدلَّس إِذا لم يُعْرف المحذوفُ منهُ = صارَ حديثُهم حَسناً، لا لذاتِهِ، بل وصْفُهُ بذلك باعتبارِ المَجْموعِ، مِن المتابِع والمتابَع؛ لأن كلَّ واحدٍ منهم احتمالُ أن تكون روايته صواباً، أو غير صوابٍ، على حدٍّ سواءٍ، فإِذا جاءَتْ مِنَ المُعْتَبَرِين روايةٌ موافِقةٌ لأحدِهِم رَجَحَ أحدُ الجانِبينِ من الاحتمالين المذكورين، وَدَلَّ ذلك على أَنَّ الحديثَ محفوظٌ؛ فارْتَقى مِن درَجَةِ التوقف إلى درجة القبول”. ( نزهة النظر ، ت الرحيلي (ص: 130،129)

ابن حجر کے شاگرد بقاعی نے بھی حسن لغیرہ کی تعریف کی ہے، لکھتے ہیں:

“الحسنَ لغيرهِ هو مالهُ سندانِ فأكثرُ، كلُ ضعيفٍ متماسكٍ فهوَ موصوفٌ بالضعفِ قبلَ معرفةِ ما يعضدهُ مطلقاً، وبعد ذَلِكَ باعتبارِ كل سَندٍ على انفرادهِ، وبالحسنِ باعتبارِ المجموعِ”. (النكت الوفية بما في شرح الألفية (1/ 76)
رضی الدین ابن الحنبلی (ت971ھ) حسن لغیرہ کی تعریف یوں کرتے ہیں:
“وَأما الْحسن لغيره فَهُوَ الْوَاحِد الَّذِي يرويهِ من يكون سيء الْحِفْظ وَلَو مختلطا لم يتَمَيَّز مَا حدث بِهِ قبل الِاخْتِلَاط أَو يكون مَسْتُورا أَو مُرْسلا لحديثه أَو مدلسا فِي رِوَايَته من غير معرفَة الْمَحْذُوف فيهمَا فيتابع أيا كَانَ مِنْهُم من هُوَ مثله أَو فَوْقه فِي الدرجَة من السَّنَد”. (قفو الأثر في صفوة علوم الأثر (ص: 50)

امام صنعانی (ت1182ھ) لکھتے ہیں:

“الذي يحتاج إلى شاهد وتابع هو الحسن لغيره وهذا هو الذي أراده الترمذي وحملوا عليه عبارة الترمذي … فإن الحسن للغير لا يلاحظ فيه خفة ضبط رواته بل يقبل مع حصول ضعف الراوي أو غلطه.” ( توضيح الأفكار لمعاني تنقيح الأنظار (1/ 155)

ان سب تعریفات وعبارات میں یہ بات مشترک ہے کہ ضعیف اسانید کو تعدد طرق کی بنا پر حسن یا حسن لغیرہ کہا گیا ہے۔
مکمل تفصیل اور اعتراضات کے جواب کے لیے میرا مقالہ بعنوان’حسن لغیرہ حجت ہے’ ملاحظہ فرمائیں۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ