دہلی میں جن علوم و فنون نے فروغ پایا اور جن سے اس شہر کو خاص نسبت حاصل رہی ان میں بہت اہم علم طب ہے۔ اس شہر سے طب کی تاریخی کڑیاں مسلم سلطنت کے قیام کی ابتداسے جڑی ہوئی ہیں۔دہلی نے اس فن کی ترقی اور فروغ میں جہاں گہری دلچسپی دکھائی ہے وہاں حاملین طب یونانی نے شہر کی علمی و ثقافتی زندگی ،شعری و ادبی روایت اور سیاسی و سماجی شعور کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔جدوجہد آزادی اور پھر قومی تعمیر نو میں بھی ان کا بیش قدر حصہ ہے۔شائستگی،نفاست،شریفانہ اطوار اور گنگا جمنی تہذیب کے جو نمونے انھوں نے پیش کئے ہیں وہ بہت ان مول اور گراں مایہ ہیں۔
وہ نہ صرف فن طب کے ماہر اور اعلی درجہ کے طبیب تھے بلکہ دوسرے علوم کے ماہر کی حیثیت سے بھی ان کا پایا بہت بلند تھا مسلم تہذیب کا ایک بڑا امتیاز اس کا ایسا جامع نظام تعلیم ہے جس کی تکمیل کے بعد جہاں ایک طرف سائنسی ، طبی مضامین مثلا علم ریاضی، علم ہندسہ ، علم ہیئت ،علم کیمیا، علم طب و تشریح کی معلومات حاصل ہوئی تھیں وہاں منطق ،فلسفہ،علم طب کے ساتھ اسلامی علوم تفسیر، حدیث،فقہ وغیرہ میں مہارت پیدا ہوتی تھی۔ یہ نظام ایک اکائی اور وحدت سے تصور پر مبنی ہے۔ اس میں علوم کی ساری شاخیں مل جاتی ہیں۔ اس تہذیب کا ہر قابل ذکر عالم دیگر علوم میں بھی کافی دخل رکھتا تھا،دوسری اقوام کے ہاں علم کی تقسیم اس طرح ہے کہ ایک شاخ کا دوسری شاخ سے کوئی تعلق نہیں رہتا ہےاور ایک علم کے ماہر کی دوسری علوم سے واقفیت نہی ہوتی ہے۔ طب یونانی میں اس تہذیبی روایت کو آسانی سے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اطباء جس طرح اور علوم میں امتیاز رکھتے تھے اسی طرح دوسرے علوم کی شخصیتیں طب سے کماحقہ واقف ہوتی تھیں۔ طب کو اسلامی تہذیب کے اس مخصوص نظام فکر میں دیکھنے سے اس کا پورا اندازہ کیا جا سکتا ہے دہلی کی خاک سے جو منتخب اور باکمال طبیب پیدا ہوئے انھوں نے نہ صرف ہندوستان میں طب کی عظمت و رفعت میں اضافہ کیا بلکہ اس سے عربی و ایرانی دور زریں کے اطباء کی یاد تازہ ہوئی ان کے اثر کا دائرہ محض اس شہر تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک کے ہر گوشے میں ان کے اثرات پھیلے ہوئے ہیں۔

(ماخوذ:دلی اور طب یونانی از حکیم سید ظل الرحمان،صفحہ17-18/ ، انتخاب: حکیم محمد ارسلان ساگر)