سوال (1328)

امام نے ایک رکعت میں تین سجدے کرلیے ہیں ، مقتدی کو پتا تو چل گیا ہے ، لیکن انہوں نے لقمہ نہیں دیا ہے ، امام صاحب نے نماز مکمل کرلی ہے ، اس کے بعد مقتدیوں نے کہا ہے کہ آپ نے تین سجدے کیے ہیں ، کیا اس صورت میں نماز دہرائیں گے یا نماز مکمل ہے؟

جواب

اس بات پر اجماع ہے کہ اگر امام نے تیسرا سجدہ جان بوجھ کیا ہے تو پھر نماز باطل ہوجائے گی.
[منهاج السنة النبوية :5/200]
اور اگر سھوا ایک سجدہ مزید ہوگیا ہے تو پھر اس کی وجہ سے سہو کے دو سجدے کیے جائیں گے
[صحیح مسلم : 572/1287] میں ہے :

“إذا زاد الرجل او نقص، فليسجد سجدتين”

“جب آدمی اضافہ یا کمی کر لے تو دو سجدے کر ے”
اور باقی رہا مقتدیوں کا مسئلہ تو اگر ان کو معلوم ہو کہ یہ سجدہ مزید کیا جارہا ہے تو وہ امام کے ساتھ سجدہ نہیں کریں گے امام چاہے جان بوجھ کر زائد کرے چاہے سھوا زائد کرے اگر انہوں نے سجدہ کیا تو ان رکعت باطل ہوجائے گی
اور اگر انہیں معلوم نہیں بلکہ شک ہو تو اس صورت میں ان کا حکم امام والا ہوگا.

فضیلۃ العالم عبد الخالق سیف حفظہ اللہ

سائل :
محترم! سجدہ سہو تو تب ہو جب امام کو معلوم ہو کہ اس نے تین سجدے کیے ہیں ، امام نے سہوا کیے مقتدی زیادہ تر شک میں تھے صرف ایک دو کو یقین تھا کہ یہ تیسرا سجدہ ہے مگر وہ لقمہ نہ دے سکے انہوں نے سلام کے بعد یہ بات بتلائی تو کیا جب انہوں نے بتلایا اسی وقت صرف سجدہ سھو کرلیا جائے ؟
جواب:
جی بالکل
جب بعد میں انھوں نے متنبہ کیا اور انہیں یقین ہے تو ان کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔
اور امام سجدہ سہو اسی وقت کرے۔
آپ نے آخری مسئلہ کی طرف اچھا اشارہ کیا۔
زائد میں امام کی اقتداء نہ کی جائے جب کہ یقین ہو کہ امام زائد کر رہا ہے ایسی صورت میں جسے علم ہے اس کی نماز باطل ہو جائے گی۔
واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

پہلی بات تو یہ ہے کہ سجدہ سہو ہوتا ہی سہو کی وجہ سے ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ صرف سجدہ سہو ہی کیا جائے گا ، نماز دہرانے کی ضرورت نہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے:

” إذا زاد الرجل أو نقص، فليسجد سجدتين” [صحیح مسلم : 572/1287]

“جب انسان کمی یا اضافہ کرے تو وہ سجدہ سہو کرے”
تیسری بات یہ ہے کہ جو صورت آپ نے ذکر کی ایک رکعت میں تین سجدوں والی، یہ نماز میں اضافہ ہے اور اگر نماز میں کمی یا اضافہ ہوجائے تو اس صورت میں سجدہ سہو سلام کے بعد ہی کیا جائے گا، پہلے نہیں، چاہے اسے سلام سے پہلے ہی یاد کیوں نہ آجائے یا علم کیوں نہ ہو جائے جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے

” عَنْ ثَوْبَانَ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ،قَالَ: لِكُلِّ سَهْوٍ سَجْدَتَانِ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ”

سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ہر سہو کے لیے سلام کے بعد دو سجدے ہیں۔‘‘
نوٹ : ہر سجدہ سہو سلام سے پہلے بھی کیا جا سکتا ہے اور بعد میں بھی، لیکن افضل بات یہ ہے کہ دو صورتوں (شک کی صورت میں، پہلا تشہد رہ جانے کی صورت میں ) میں سجدہ سلام سے پہلے کیا جائے، باقی ہر صورت میں سجدہ سہو سلام کے بعد کیا جائے.
والله تعالى أعلم بالصواب وأتم علمه
لكل سهو……….. حدیث کا حوالہ
[اخرجه ابن ماجه : 1219]
إسماعیل بن عیاش صرح بالسماع عند البیھقي (2/337) وزھیر بن سالم وثقہ ابن حبان والذھبي فی الکاشف فالسند حسن.

فضیلۃ العالم عبد الخالق سیف حفظہ اللہ

یہ حدیث سندا اور متنا معلول ہے۔ تفصیل علل احادیث الاحکام للطریفی میں دیکھ لی جائے
جزاکم اللہ خیرا ، اسی طرح إرواء الغليل للألباني رحمه الله
کمی میں سجدہ سہو پہلے جب کہ زیادتی کی صورت میں بعد میں کیا جایا گا۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

دلیل حدیث سے مطلوب ہے ؟

فضیلۃ العالم عبد الخالق سیف حفظہ اللہ

یہ قاعدہ نبی علیہ السلام کی سہو کی صورتوں سے اخذ کیا گیا ہے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

میں بحث میں نہیں جانا چاہتا اور نہ ہی میں بحث مناسب سمجھتا ہوں. حدیث سے ایک ایک مثال پیش کردیں
حفظک اللہ

فضیلۃ العالم عبد الخالق سیف حفظہ اللہ

ابن العثيمين کے رسالہ فی سجود السهو میں تمام صورتیں مذکور ہیں ، اگر کوئی صورت مذکورہ قاعدہ کے خلاف ہے تو بیان کر دیجئے
جزاکم اللہ خیرا

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

کمی کی صورت میں قبل السلام اور بعد السلام دونوں میں اختیار ہے دونوں ہی مسنون ہیں ، جو صورت مذکورہ قاعدے کے خلاف ہے اس کی دلیل

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ،عَنْ الْمَسْعُودِيِّ،عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ،قَالَ:‏‏‏‏ صَلَّى بِنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَلَمَّا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ قَامَ وَلَمْ يَجْلِسْ فَسَبَّحَ بِهِ مَنْ خَلْفَهُ،‏‏‏‏‏‏فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنْ قُومُوا،‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ سَلَّمَ وَسَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ هَكَذَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ،‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ،‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
[سنن الترمذی حدیث نمبر : 365 ، تحقیق و تخریج: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ، حکم الحدیث: حسن]

ہمیں مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ نے نماز پڑھائی،جب دو رکعتیں پڑھ چکے تو (تشہد میں) بغیر بیٹھے کھڑے ہو گئے۔تو جو لوگ ان کے پیچھے تھے انہوں نے سبحان اللہ کہا،تو انہوں نے انہیں اشارہ کیا کہ تم بھی کھڑے ہو جاؤ پھر جب وہ اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے سلام پھیرا اور سہو کے دو سجدے کئے اور سلام پھیرا،اور کہا: ایسے ہی رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: 1-یہ حدیث حسن صحیح ہے،2-یہ حدیث مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کے واسطے سے اور بھی سندوں سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،حَدَّثَنَا اللَّيْثُ،عَنْ ابْنِ شِهَابٍ،عَنْ الْأَعْرَجِ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ الْأَسَدِيِّ حَلِيفِ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ،أَنّ النَّبِيَّ ﷺ قَامَ فِي صَلَاةِ الظُّهْرِ وَعَلَيْهِ جُلُوسٌ،‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَتَمَّ صَلَاتَهُ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ سَجْدَةٍ وَهُوَ جَالِسٌ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ،‏‏‏‏‏‏وَسَجَدَهُمَا النَّاسُ مَعَهُ مَكَانَ مَا نَسِيَ مِنَ الْجُلُوسِ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ.[سنن الترمذی حدیث نمبر : 391 تحقیق و تخریج: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ، حکم الحدیث: متفق علیہ ]

نبی اکرم ﷺ نماز ظہر میں کھڑے ہو گئے جب کہ آپ کو بیٹھنا تھا،چنانچہ جب نماز پوری کر چکے تو سلام پھیرنے سے پہلے آپ نے اسی جگہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کئے،آپ نے ہر سجدے میں اللہ اکبر کہا،اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدہ سہو کیے۔امام ترمذی کہتے ہیں:
1-ابن بحینہ کی حدیث حسن صحیح ہے
2-اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ سے بھی حدیث آئی ہے
3-محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ابوہریرہ اور عبداللہ بن سائب قاری رضی الله عنہما دونوں سہو کے دونوں سجدے سلام سے پہلے کرتے تھے۔
4-اور اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے اور شافعی کا بھی یہی قول ہے،ان کی رائے ہے کہ سجدہ سہو ہر صورت میں سلام سے پہلے ہے،اور یہ حدیث دوسری حدیثوں کی ناسخ ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا عمل آخر میں اسی پر رہا ہے
5-اور احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ جب آدمی دو رکعت کے بعد کھڑا ہو جائے تو وہ ابن بحینہ رضی الله عنہ کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے
6-علی بن مدینی کہتے ہیں کہ عبداللہ ابن بحینہ ہی عبداللہ بن مالک ہیں،ابن بحینہ کے باپ مالک ہیں اور بحینہ ان کی ماں ہیں
7-سجدہ سہو کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے کہ اسے آدمی سلام سے پہلے کرے یا سلام کے بعد۔بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اسے سلام کے بعد کرے،یہ قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے
8-اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اسے سلام سے پہلے کرے یہی قول اکثر فقہاء مدینہ کا ہے،مثلاً یحییٰ بن سعید،ربیعہ وغیرہ کا اور یہی قول شافعی کا بھی ہے
9-اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد کرے اور جب کمی رہ گئی ہو تو سلام سے پہلے کرے،یہی قول مالک بن انس کا ہے
10-اور احمد کہتے ہیں کہ جس صورت میں جس طرح پر سجدہ سہو نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے اس صورت میں اسی طرح سجدہ سہو کرنا چاہیئے،وہ کہتے ہیں کہ جب دو رکعت کے بعد کھڑا ہو جائے تو ابن بحینہ رضی الله عنہ کی حدیث کے مطابق سلام سے پہلے سجدہ کرے اور جب ظہر پانچ رکعت پڑھ لے تو وہ سجدہ سہو سلام کے بعد کرے،اور اگر ظہر اور عصر میں دو ہی رکعت میں سلام پھیر دے تو ایسی صورت میں سلام کے بعد سجدہ سہو کرے،اسی طرح جس جس صورت میں جیسے جیسے رسول اللہ ﷺ کا فعل موجود ہے،اس پر اسی طرح عمل کرے،اور سہو کی جس صورت میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی فعل مروی نہ ہو تو اس میں سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے۔11-اسحاق بن راہویہ بھی احمد کے موافق کہتے ہیں۔مگر فرق اتنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ سہو کی جس صورت میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی فعل موجود نہ ہو تو اس میں اگر نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد سجدہ سہو کرے اور اگر کمی ہوئی ہو تو سلام سے پہلے کرے۔

فضیلۃ العالم عبد المنان المدنی حفظہ اللہ

نہیں! سجده سہو نہیں کرنا ہوگا، کیونکہ اصل اہمیت سورة فاتحہ کی ہے، اس کے بعد سورۃ یا کچھ آیات پڑھنا لازمی نہیں بلکہ مستحب ہے، اگر وہ چھوٹ جائے تو سجدہ سہو لازم نہیں آتا۔ اور اگر کوئی کر لے تب بھی کوئی حرج نہیں، نماز ٹھیک ہوگی ان شاء اللہ!
[شیخ ابن باز، فتاویٰ نور علی الدرب 2 ؍ 786]

فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ

یہ حدیث صحیح نہیں
المسعودی سے یزید کا سماع بعد الاحتلاط ہے اور خود المسعودی ضابط نہیں ، البتہ اس باب کی دیگر احادیث سے بہتر ہے جو سنن ترمذی میں مذکور ہیں اور یہی امام صاحب کے قول کا مطلب ہے۔
دوسری سند سے امام صاحب نے روایت ذکر کی
روایت اور کلام ملاحظہ فرمائیں

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى ، عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ : صَلَّى بِنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ ، فَنَهَضَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ، فَسَبَّحَ بِهِ الْقَوْمُ، وَسَبَّحَ بِهِمْ، فَلَمَّا قضى صَلَاتَهُ سَلَّمَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ وَهُوَ جَالِسٌ، ثُمَّ حَدَّثَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ بِهِمْ مِثْلَ الَّذِي فَعَلَ. وَفِي الْبَابِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَسَعْدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ. حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي ابْنِ أَبِي لَيْلَى مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ : قَالَ أَحْمَدُ : لَا يُحْتَجُّ بِحَدِيثِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى. وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ : ابْنُ أَبِي لَيْلَى هُوَ صَدُوقٌ وَلَا أَرْوِي عَنْهُ ؛ لِأَنَّهُ لَا يَدْرِي صَحِيحَ حَدِيثِهِ مِنْ سَقِيمِهِ، وَكُلُّ مَنْ كَانَ مِثْلَ هَذَا فَلَا أَرْوِي عَنْهُ شَيْئًا. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَرَوَى سُفْيَانُ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُبَيْلٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ. وَجَابِرٌ الْجُعْفِيُّ قَدْ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ. تَرَكَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَغَيْرُهُمَا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا قَامَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مَضَى فِي صَلَاتِهِ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، مِنْهُمْ مَنْ رَأَى قَبْلَ التَّسْلِيمِ، وَمِنْهُمْ مَنْ رَأَى بَعْدَ التَّسْلِيمِ، وَمَنْ رَأَى قَبْلَ التَّسْلِيمِ فَحَدِيثُهُ أَصَحُّ ؛ لِمَا رَوَى الزُّهْرِيُّ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ.

مغیرہ رضی اللہ کی روایت اور کئی طرق سے بھی مروی ہے۔ تفصیل إراواء الغليل میں دیکھئے ، البانی صاحب رحمۃ اللہ نے اس میں جس حدیث کو “اسنادہ صحیح رجالہ کلہ ثقات” کہا(باقی سب اسناد میں کلام ہے) اسے طحاوی رحمہ اللہ نے بیان کیا اور اس میں سجدتین سے پہلے سلام کا ذکر نہیں۔
بلکہ اس باب کی دیگر روایات کے موافق ہے
جس میں تشہد رہنے کی صورت میں سجدتین کے بعد سلام پھیرنا وارد ہے۔
ھذا ھو الاصح فی ھذا الباب

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

قال أبو داود وكذلك رواه ابن أبي ليلى عن الشعبي عن المغيرة بن شعبة ورفعه ورواه أبو عميس عن ثابت بن عبيد قال صلى بنا المغيرة بن شعبة مثل حديث زياد بن علاقة قال أبو داود أبو عميس أخو المسعودي وفعل سعد بن أبي وقاص مثل ما فعل المغيرة وعمران بن حصين والضحاك بن قيس ومعاوية بن أبي سفيان وابن عباس أفتى بذلك وعمر بن عبد العزيز قال أبو داود وهذا فيمن قام من ثنتين ثم سجدوا بعد ما سلموا
وحديث أبي عميس أجود شيء في هذا فإن أبا العميس عتبة بن عبد الله ثقة احتج به الشيخان في صحيحيهما وثابت بن عبيد ثقة احتج به مسلم
ويروي أبو عميس عن ثابت عن المغيرة وحديث المغيرة هذا فيه حجة قاطعة على أنه من قام من اثنتين ولم يجلس ولم يتشهد عليه أن يسجد سجدتي السهو . وفيه دليل أيضا لمن ذهب إلى أن سجدتي السهو بعد السلام .
عون المعبود
( وفعل سعد بن أبي وقاص ) مالك الصحابي الجليل ( مثل ما فعل المغيرة )
وحديث سعد بن مالك أبي وقاص أخرجه الطحاوي من طريق شعبة عن بيان سمعت قيس بن أبي حازم قال ” صلى بنا سعد بن مالك فقام في الركعتين الأوليين فقالوا سبحان الله فمضى فلما سلم سجد سجدتي السهو ” وفي مجمع الزوائد وعن قيس بن حازم قال ” صلى بنا سعد بن أبي وقاص فنهض في الركعتين فسبحنا له فاستتم قائما قال فمضى في قيامه حتى فرغ قال أكنتم ترون أن أجلس إنما صنعت كما رأيت رسول الله – صلى الله عليه وسلم – يصنع ” رواه أبو يعلى والبزار ورجاله رجال الصحيح .

1- حديث مغيرة رضي الله عنه کو آپ کے علاوہ کس نے غیر صحیح کہا ہے؟
2- حدیث مغيرة رضي الله عنه میں جو آپ نے بیان کیا کہ طحاوی رحمه اللہ نے صحیح سند سے بیان کی کہ تشہد رہنے کی صورت میں سجدتین کے بعد سلام پھیرنا وارد ہے اس کا سکرین شاٹ درکار ہے۔

فضیلۃ العالم عبدالمنان المدنی حفظہ اللہ

میں اس کا ذمہ دار ہوں جو میں نے کہا ، اس کا نہیں جو آپ سمجھ رہیں ہیں ، میں نے کہا کہ مغیرہ کی روایت جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسناہ صحیح کہا (اور جو الفاظ ذکر کیے) اس میں قبل السجدتین سلام کا ذکر نہیں ہے ، ایسی صورت میں اسے ان روایات کے موافق سمجھا جائیں جن میں تشہد رہ جانے کی صورت میں قبل السلام سجدتین کا ذکر ہے ، اس روایت میں شعبہ پر اختلاف وارد ہے۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس کے موقوف ہونے کو محفوظ قرار دیا ہے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

اب آپ نے بات تبدیل کر لی ہے اور آپ کو پتا بھی ہے ، آپ نے واضح الفاظ میں لکھا تھا کہ اس روایت میں سجدتین کے بعد سلام پھیرنا وارد ہے ، نمبر 1 کا جواب بھی مرحمت فرما دیں

فضیلۃ العالم عبدالمنان المدنی حفظہ اللہ

میرا یہ مقصود ہرگز نہیں تھا ، اللہ المستعان ، مقصود یہی تھا جس کی وضاحت کی ہے کہ اس میں سلام کے الفاظ نہیں ، تو اسے اس باب کی باقی روایات کے موافق سمجھا جائے ، جی بالکل کہا ہے ، کیونکہ اس حدیث کا مدار جابر الجعفی پر ہے ، جو متابعات طحاوی سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے ذکر کی ہیں ، اصل میں وہ اسناد کا سقط ہے ، مثلا قیس بن ربیع اور ابراھیم بن طھمان کی متابعت ، تو اصل میں ان کی دونوں کی روایت جابر سے ہے نہ کہ مغیرہ بن شبیل سے ، البانی صاحب رحمۃ اللہ کا کلام سلسلہ سے ملاحظہ فرمائیں

قد وجدت لجابر الجعفي متابعين لم أر من نبه عليهما ممن خرج الحديث من المتأخرين، بل أعلوه جميعا به … ولذلك رأيت لزاما علي ذكرهما حتى لا يظن ظان أن الحديث ضعيف لرواية جابر له.
الأول: قيس بن الربيع عن المغيرة بن شبيل عن قيس قال:
” صلى بنا المغيرة بن شعبة، فقام في الركعتين، فسبح الناس خلفه، فأشار إليهم أن قوموا، فلما قضى صلاته، سلم و سجد سجدتي السهو، ثم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا استتم أحدكم قائما، فليصل، و ليسجد سجدتي السهو، و إن لم يستتم قائما، فليجلس، و لا سهو عليه “.
و الآخر: إبراهيم بن طهمان عن المغيرة بن شبيل به نحوه بلفظ:
” فقلنا: سبحان الله، فأومى، و قال: سبحان الله، فمضى في صلاته، فلما قضى صلاته سجد سجدتين، و هو جالس ثم قال: إذا صلى أحدكم، فقام من الجلوس، فإن لم يستتم قائما فليجلس، و ليس عليه سجدتان، فإن استوى قائما فليمض في صلاته، و ليسجد سجدتين و هو جالس “. أخرجه عنهما الطحاوي (1/ 355).
و قيس بن الربيع، و إن كان فيه ضعف من قبل حفظه، فإن متابعة إبراهيم بن طهمان له، و هو ثقة، مما يقوي حديثه، و هو و إن كان لم يقع في روايته التصريح برفع الحديث، فهو مرفوع قطعا، لأن التفصيل الذي فيه لا يقال من قبل الرأي لاسيما و الحديث في جميع الطرق عن المغيرة مرفوع، فثبت الحديث و الحمد لله).

قيس بن ربيع کی روایت جابر سے ہے اس کے لئے دیکھئے سنن دارقطنی
أما ما ذكره من متابعة قيس بن الربيع لجابر الجعفي فهذا مما وهم فيه الشيخ رحمه الله، فإن قيس بن الربيع يرويه عن جابر الجعفي عن المغيرة بن شبيل، فهو راو له عن جابر لا متابع لجابر.
كذا رواه الدارقطني فقال:

(حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ النُّعْمَانِىُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بُدَيْلٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ عَنْ جَابِرٍ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُبَيْلٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِى حَازِمٍ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ «إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فَقَامَ فِى الرَّكْعَتَيْنِ فَاسْتَتَمَّ قَائِمًا فَلْيَمْضِ وَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَإِنْ لَمْ يَسْتَتِمَّ قَائِمًا فَلْيَجْلِسْ وَلاَ سَهْوَ عَلَيْهِ).
وأما ما وقع في المطبوع من شرح معاني الآثار للطحاوي من روايته عن قيس بن الربيع عن المغيرة بن شبيل فهو خطأ، إما من النسخة المطبوعة أو من أحد الرواة من بعده.
وذلك لأن قيس بن الربيع لا يروي عن المغيرة بن شبيل وإنما يروي عن جابر الجعفي كما في تهذيب الكمال.
ولم أجد من ذكر قيس بن الربيع في الرواة عن المغيرة بن شبيل.
وبالنسبة للمتابع الثاني لجابر الجعفي وهو إبراهيم بن طهمان الإمام الثقة.
فإن الوهم فيه كالوهم الذي في سابقه
فإبراهيم بن طهمان لا يروي الحديث عن المغيرة بن شبيل وإنما يرويه عن جابر الجعفي، وهو مذكور في الرواة عن جابر الجعفي ولم يذكره احد من الرواة عن المغيرة بن شبيل.
فالخطا الموجود في شرح معلني الآثار مرجعه إما إلى الناسخ والطابع أو لوجود سقط في السند أو غير ذلك.
والذي يؤكد ذلك أن أحدا من العلماء لم يذكر لجابر الجعفي متابعا في هذا الحديث، ولو كان الحديث مرويا من طريق إبراهيم بن طهمان عن المغيرة لتناقله العلماء وذكروه فهو ثقة وإمام مشهور.
خاصة وأنهم قد نصوا أن هذا الحديث مداره على جابر الجعفي، كما ذكر الحافظ ابن الملقن وابن حجر وغيرهم.

(البانی رحمہ اللہ کا کلام إرواء الغليل میں بھی دیکھ لیا جائے)

وقد حكم بضعف هذا الحديث جماعة كثيرة من العلماء المحققين لأن مداره على جابر الجعفي وهو ضعيف، ومنهم: النووي في الخلاصة (2/ 643) والمزي كذلك في تهذيب الكمال (3/ 309)، والذهبي في المهذب (2/ 776).
وقال ابن الملقن: (مداره على جابر الجعفي) البدر المنير (4/ 222).
وقال ابن كثير: (من حديث جابر بن يزيد الجعفي وهو ضعيف) إرشاد الفقيه (160/ 1).
وقال ابن رجب: (في إسناده جابر الجعفي، ضعفه الأكثرون) فتح الباري (6/ 445).
قال ابن حجر في التلخيص الحبير: (وَمَدَارُهُ عَلَى جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ وَهُوَ ضَعِيفٌ جِدًّا).
وقال الصنعاني: (مداره في جميع طرقه على جابر الجعفي وهو ضعيف) سبل السلام (1/ 326).
وقال الشوكاني: (مداره على جابر الجعفي وهو ضعيف جدا) نيل الأوطار (3/ 146).
(ملتقي أهل الحديث الجزو ٥٠ صفحة ٣٨٤-٣٨٥)

حدیث مغیرہ کی کوئی صحیح یا حسن سند پیش کر دیجئے۔
جزاکم اللہ خیرا
نبی علیہ السلام سے تشہد رہ جانے کی صورت میں سجود السهو قبل السلام ہی محفوظ ہیں
واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

ويروي أبو عميس عن ثابت عن المغيرة وحديث المغيرة هذا فيه حجة قاطعة على أنه من قام من اثنتين ولم يجلس ولم يتشهد عليه أن يسجد سجدتي السهو . وفيه دليل أيضا لمن ذهب إلى أن سجدتي السهو بعد السلام .

شیخ اس کا جواب ؟

فضیلۃ العالم عبدالمنان المدنی حفظہ اللہ

اس قول کی تخریج کر دیجئے۔ میرے علم میں تو ثابت بن عبید کی روایت موقوفا (عن المغیرہ) مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے۔
اس میں الفاظ ہیں
صلیت خلف المغيرة بن شعبة فقام في الركعتين فلم يجلس فلما فرغ سجد سجدتين

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ مِنْ الرَّكْعَتَيْنِ فَلَمْ يَسْتَتِمَّ قَائِمًا فَلْيَجْلِسْ فَإِذَا اسْتَتَمَّ قَائِمًا فَلَا يَجْلِسْ وَيَسْجُدْ سَجْدَتَيْ السَّهْوِ

’’جب کوئی شخص دو رکعتیں پڑھ کر(التحیات پڑھے بغیر) اٹھ کھڑا ہو اور ابھی پوری طرح کھڑا نہ ہوا ہو(کہ یاد آجائے) تو وہ بیٹھ جائے۔اگر پوری طرح کھڑآ ہو چکا ہو(پھر یاد آئے) تب نہ بیٹھے (زائد رکعت پوری کر کے) سہو کے سجدے کر لے۔‘‘ (ابن ماجہ: 1208)
یہ روایت مرفوعا، موقوفا اور مختصرا و مفصل بیان ہوئی ہے۔
اسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے “صحیح” اور زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے “حسن” کہا ہے۔
مزید دیکھیں ابوداؤد: 1036،1037، ترمذی: 364، 365، مصنف ابی شیبۃ: 4561، 4570، مسند احمد: 18173

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ