سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میرا نام یاسمین ہے۔ میری شادی کو 26 سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ شوہر کا مزاج ہمیشہ سے بہت سخت رہا ہے۔بات بات پر آزاد کردینے کے الفاظ بولتے رہتے ہیں۔ لیکن میں نے اپنے شوہر کے منہ سے آزاد کر دینے کے لفظ کو کبھی توجہ نہیں دی اور اب یاد نہیں ہے کہ آزاد کر دینے کا لفظ شوہر نے کلیئرلی کیا بولا تھا۔بہرحال کافی مرتبہ آزاد کردینے کا لفظ بول چکے ہیں ۔اور تقریبا شادی کو پانچ سال کا عرصہ گزرا ہوگا اس ٹائم اپنی بہن کے سامنے شوہر نے ایک دفعہ طلاق دے دی اور یہ بھی کہا کہ میں پورے ہوش و حواس میں کہہ رہا ہوں میں نے طلاق دی ہے۔پھر شادی کو تقریبا ساڑھے نو سال کا عرصہ گزرا تھا تو میں اپنی والدہ کے گھر گئی تھی اور خود شوہر نے گھر سے نکل جانے کو کہا تھا، میری والدہ، تین بھائی اور میری بھابی، جو کہ میرے نند بھی ہے، سب بات کرنے کے لئے گئے، تو مظہر (میرے شوہر) نے کہا اگر یاسمین نہیں آئی تو میں نے طلاق دی۔
دو بھائی اور ایک بھابھی سب نے کہا کہ اگر کا لفظ نہیں بولا، ایک بھائی کو یاد نہیں تھا، اور میرے سسر وہ بھی موجود تھے، اس سے اور میری والدہ، ان سے عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے معلوم نہیں کیا گیا ،اور میں دو ماہ اپنی والدہ کے گھر گزار کر آگئی ،باقاعدہ نکاح کرایا گیا ،اور اب مزید 16 سال گزر چکے ہیں ،مگر شوہر کا مزاج دن بدن سخت ہوتا جا رہا ہے بات بات پر طلاق دے دوں گا، فلاں کام کیا تو گھر ختم۔اس طرح کی عادت ہوگئی ہے،شرعی طور پر میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ میرا رشتہ برقرار ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

الفاظ کے اعتبار سے طلاق کی دو قسمیں ہیں:
1:طلاق صریح
2:طلاق کنایہ
طلاق صریح : سے مراد وہ طلاق ہے جس میں ایسے الفاظ کے ذریعے طلاق دی جائے جو طلاق کے لئے بالکل واضح ہوں، اور ان کے بولنے کے بعد یہ جاننے کی ضرورت نہ رہے کہ شوہر نے یہ لفظ بولتے ہوئے طلاق کی نیت کی تھی یا نہیں۔ جیسے: عربی کا لفظ طلاق، اردو کا جملہ ’تجھے طلاق ہے‘ اور انگریزی کا لفظ Divorce وغیرہ طلاق کے لیے صریح الفاظ ہیں۔ انہیں بولتے ہی طلاق واقع ہو جائے گی، خواہ بیوی کو مذاق میں بولے جائیں، یا سنجیدگی سے بولے گئے ہوں۔
طلاق کنایہ : ایسے الفاظ کے ذریعے دی گئی طلاق کو کہا جاتا ہے ،جو طلاق کے مفہوم میں واضح نہ ہوں۔البتہ اگر شوہر ان الفاظ کو بولتے ہوئے طلاق کی نیت کر لے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے،جیسے توآزاد ہے، تو فارغ ہے وغیرہ۔ کنایہ الفاظ سے طلاق کا فیصلہ کرنے کے لیے بولنے والے کی نیت معلوم کرنا ضروری ہے۔ اگر کنایہ کا لفظ طلاق کی نیت سے بولا گیا ہو، تو طلاق واقع ہوگی ورنہ نہیں۔
اگر آپ کے خاوند نے مختلف مجالس میں تین مرتبہ، یا اس سے زیادہ یہ الفاظ بولے ہیں، اور نیت طلاق کی تھی، تو پھر طلاق واقع ہوگئی۔
اگر نیت طلاق دینے کی نہیں تھی، ویسے دھمکی وغیرہ دی ہے تو پھر طلاق واقع نہیں ہوئی۔
ہاں البتہ اس نے آپ کو جو واضح طور پر ایک طلاق دی ہے، وہ طلاق واقع ہوگئی تھی، لیکن اگر آپ نے عدت کے اندر اندر رجوع کر لیا، تو آپ اس کی بیوی ہیں۔
اسی طرح اس نے جو کہا کہ اگر آپ گھر آگئیں، تو ٹھیک ورنہ طلاق ہے، پھر آپ گھر آگئیں تو طلاق نہیں ہوئی۔ اگر نہ آتی توطلاق ہوتی۔ اور جو شک کی بات کہ اس نے ’اگر‘ کا لفظ کہا تھا یا نہیں؟ تو اگر دو گواہ موجود ہیں، تو پھر اس میں گواہوں کی بات پر اعتبار کیا جائے گا۔
شوہر کا یہ کہتے رہنا کہ ’ اگر یہ کام کیا تو طلاق دے دوں گا‘ تو اگر آپ وہ کام نہ کریں، تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ یعنی اگر وہ طلاق کو کسی شرط کے ساتھ معلق کرتا ہے، تو وہ شرط پائی گئی تو طلاق ہو جائے گی، ورنہ نہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ