سوال (354)

ایک عیسائی لڑکی تھی، جس نے اپنے عیسائی بوائے فرینڈ کے ساتھ بغیر نکاح کیے ہی تعلقات بنائے تھے، جس سے اس کی ایک بیٹی پیدا ہوئی تھی، اب یہ لڑکی مسلمان ہو چکی ہے اور وہ کسی مسلمان سے شادی کرنا چاہتی ہے، سوال یہ ہے کہ اس کی جو بیٹی ہے، وہ کس کے نام سے منسوب ہو گی؟ اس کے بوائے فرینڈ کے نام سے یا پھر اس کے نئے مسلمان خاوند کے نام سے؟

جواب

زنا سے پیدا ہونے والے بچے کی دو صورتیں ہوتی ہیں، اگر تو زانیہ عورت شادی شدہ ہو، تو پھر زنا سے پیدا ہونے والا بچہ اس کے اسی خاوند کی طرف منسوب ہو گا، جس کے عقد نکاح میں وہ ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“الولد للفراش وللعاهر الحجر” [رواه البخاري : 2053 ، مسلم : 1457]

«بچہ صاحب فراش کی طرف منسوب ہو گا، جبکہ زانی کے لیے پتھر ہیں»
صاحب فراش سے مراد اس عورت کا خاوند ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ وہ عورت غیر شادی شدہ ہو، جیسا کہ صورتِ مسؤلہ میں ہے، ایسی صورت میں اس بدکاری سے پیدا ہونے والا بچہ اس کی ماں کی طرف ہی منسوب ہو گا، کیونکہ اس کا شرعی خاوند تو تھا نہیں، جبکہ زانی کی طرف کسی بھی صورت بچے کی نسبت درست نہیں، جیسا کہ اوپر حدیث میں فرمایا کہ «زانی کے لیے صرف پتھر ہیں» لہذا یہی صورت بچتی ہے کہ اسے اس کی ماں کی نسبت سے ہی پکارا جائے۔
اگر یہ خاتون آگے کسی مسلمان سے نکاح کر لیتی ہیں، تو اس کی بیٹی اس کے خاوند کے لیے ربیبہ کے طور پر ہو گی۔
اسی طرح اگر قانونی طور پر کاغذات میں سرپرست کا خانہ ہو، تو یہ خاتون اپنے شوہر کو اس بچی کے سرپرست کے طور پر لکھوا سکتی ہیں، بطور والد لکھوانا بالکل درست نہیں!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ