(1)۔ غیر مسلم کوئی نئی عبادت گاہ تعمیر نہیں کریں گے، اپنی کسی عبادت گاہ کی مرمت کی ضرورت ہو تب بھی تجدید نہیں کریں گے۔
(2)۔ اپنی عبادت گاہ میں دن یا رات کے کسی حصے میں مسلمانوں کو داخل ہونے یا قیام کرنے سے منع نہیں کریں گے۔
(3)۔ کسی جاسوس کو پناہ نہیں دیں گے اور مسلمانوں سے کوئی دھوکہ نہیں کریں گے۔
(4)۔ مذہبی ناقوس /ہارن کی آواز بلند نہیں کریں گے، صرف اتنی بلند ہو کہ ان کی عبادت گاہ کے اندر تک رہے۔
(5)۔ عبادت یا انجیل پڑھتے ہوئے آواز اتنی بلند نہیں کریں گے کہ کسی مسلمان کو سنے۔
(6)۔ صلیب، مذہبی شعار یا کتاب کو کسی ایسی جگہ ظاہر نہیں کریں گے جہاں مسلمانوں کو نظر آئے۔
(7)۔ جس طرح مسلمان اپنی عید پر اجتماع کرتے ہیں ایسے اپنی عید پر سر عام اکٹھ نہیں کریں گے۔
(8)۔ اپنے دین کی تبلیغ نہیں کر سکیں گے اور نہ کسی کو اپنے دین کی ترغیب دیں گے۔
(9)۔ اپنے مُردوں کو لے کر مسلمانوں کے بازاروں سے نہیں گزریں گے، نہ ہی میت پر آواز بلند کریں گے۔
(10)۔ اپنی عبادت، خنزیر اور شراب کو مسلمانوں کے سامنے ظاہر نہیں کریں گے۔
(11)۔ اگر کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرنا چاہے تو اسے منع نہیں کریں گے۔
(12)۔ اپنے پاس کوئی اسلحہ نہیں رکھیں گے، نہ اسلحہ اٹھا کر چلیں گے۔
(13)۔ مجالس میں مسلمانوں کی تکریم کریں گے، اگر کہیں بیٹھے ہوں اور مسلمان آ کر وہاں بیٹھنا چاہیں تو ان کے لیے جگہ خالی کر دیں گے۔
(14)۔ کسی مسلمان کے ساتھ تجارت یا کاروبار میں صرف اسی صورت شریک ہو سکیں گے کہ جب اصل مالک مسلمان ہو۔
(15)۔ اگر کوئی مسلمان مسافر آئے گا تو تین دن تک اس کی ضیافت کریں گے۔
(16)۔ لباس، ٹوپی، عمامہ اور سر کی مانگ نکالنے میں بھی مسلمانوں کا حُلیہ اختیار نہیں کریں گے، مسلمانوں جیسی سواری نہیں رکھیں گے، اپنا لباس خاص رکھیں گے۔

مزید پڑھیں: غلام بنانے کے متعلق اسلامی نقطہ نظر

⇚یہ وہ شرائط ہیں جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شام کے عیسائیوں پر عائد کی تھیں، پھر ان پر مسلمانوں کا اجماع ہو گیا اور ہمیشہ سے علماء و حکمران انہیں پر عمل کرتے رہے، یہ “شروطِ عمریہ” کے نام سے معروف ہیں، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس کے مختلف طرق ذکر کیے ہیں، اور مفصل شرح کی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو؛

                          (أحكام أهل الذمة، ذِكْرُ الشُّرُوطِ العُمَرِيَّةِ وأحْكامِها ومُوجِباتِها۔)

حافظ محمد طاھر