کیا اسلام میں غلام بنانا اب منسوخ ہوچکا ہے؟
غلامی(Enslavement) پر اسلامی نقطئہ نظر اور مستشرقین،مغربیت زدہ لبرلز کا پروپیگنڈا

ملک یمین یا غلام اور باندی بنانا (Enslavement) ان مسائل میں سے ہے جن کو بنیاد بناتے ہوئے مستشرقین اور مغرب پرست لبرلز نے اسلام پر بہت زیادہ طعن و تشنیع کی ہے جبکہ ملک یمین کا طریقہ اسلام سے قبل قدیم زمانے سے چلا آرہا تھا اور ہر قوم میں یہ عادت پائی جاتی تھی، خواہ عیسائی ہوں یا یہودی، ہنود ہوں یا دیگر اقوام ان ملحدوں اور یورپی لبرلز کے آئیڈیل فلاسفرز ارسطو افلاطون کے ہاں بھی قدیم یونان میں ایتھنز اور سپارٹا میں غلاموں کا ایک باقاعدہ تجارتی ادارہ قائم تھا۔
پوری انسانی تاریخ میں ، غلاموں نے طاقتور امیروں سے لے کر دستی مزدوروں کے ساتھ سخت سلوک کرنے اورمختلف معاشرتی اور معاشی کرداروں میں خدمات انجام دیں۔ بعض دفعہ تو غلام اتنے زیادہ ہوجاتے تھے کہ تباہ کن بغاوت ہوجاتی سب سے زیادہ قابل ذکر زنگی بغاوت ہے۔ غلاموں کو بڑے پیمانے پر آبپاشی ، کان کنی اور جانور پالنے میں ملازمت حاصل تھی ، لیکن سب سے زیادہ عام استعمال فوجی ، محافظ اور گھریلو ملازمین کی حیثیت سے تھا۔ بہت سارے حکمران فوجی غلاموں پر انحصار کرتے تھے ، اکثر بڑی کھڑی فوجوں میں اور انتظامیہ میں غلاموں کو اس حد تک پہنچا دیتے تھے کہ غلام بعض اوقات اقتدار پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں رہتے تھے۔ان غلام سپاہیوں کی بغاوت اور اقتدار میں آنے سے بننے والی سلطنت مملوک (1250ء سے 1517ء) بھی قابل ذکر ہے،
سلطنت روم ماضی کی عظیم ترین سلطنت ( 200BC تا 1500عیسوی) رہی ہے۔ یہاں غلاموں پر بدترین تشدد ہوتا رہا، ان کے قوانین کو غلامی سے متعلق سخت ترین قوانین قرار دیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر کیتھ بریڈلے اپنے آرٹیکل “قدیم روم میں غلاموں کی مزاحمت (Resisting Slavery in Ancient Rome)” میں اس دور کی غلامی کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں:
روم اور اٹلی میں، 200 قبل مسیح سے لے کر 200 عیسوی تک، کی چار صدیوں میں آبادی کا چوتھائی بلکہ تہائی حصہ غلاموں پر مشتمل تھا۔ اس دوران کروڑوں کی تعداد میں مرد، خواتین اور بچے کسی بھی قسم کے حقوق کے بغیر رہتے رہے ہیں گویا کہ قانونی اور معاشرتی طور پر وہ سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے۔ وہ انسان ہی نہیں سمجھے جاتے تھے۔
پلوٹرک کی بیان کردہ معلومات کے مطابق کسی غلام کا نام ہی نہ ہوا کرتا تھا۔ انہیں کوئی چیز اپنی ملکیت میں رکھنے، شادی کرنے یا قانونی خاندان رکھنے کی کوئی اجازت نہ ہوا کرتی تھی۔ غلاموں کا مقصد یا تو محض محنت کرنے والے کارکنوں کا حصول ہوا کرتا تھا یا پھر یہ اپنے آقاؤں کی دولت کے اظہار کے لئے اسٹیٹس سمبل کے طور پر رکھے جاتے تھے۔ غلاموں کو جسمانی سزائیں دینا اور ان کا جنسی استحصال کرنا عام تھا۔اپنی تعریف کے لحاظ سے ہی غلامی ایک وحشی، متشددانہ اور غیر انسانی ادارہ تھا جس میں غلام کی حیثیت محض ایک جانور کی سی تھی۔
آقاؤں کی تفریح کے لئے غلاموں کو ایک دوسرے یا وحشی درندوں سے لڑایا جاتا۔ ان غلاموں کو اس کی باقاعدہ تربیت دی جاتی اور ان لڑائیوں کا نتیجہ کسی ایک کی موت کی صورت ہی میں نکلتا۔ فتح یاب غلام کو آزادی دینا اس کے مالکوں اور تماشائیوں کی صوابدید پر منحصر ہوا کرتا تھا۔
قدیم یونان
قدیم یونانی معاشرہ میں پورا ایک طبقہ ہیلوٹس کا تھا جو غلاموں پر مشتمل ہوتا تھا۔ یونان میں بہت سے لوگوں کے پاس اپنی زمین نہ تھی اور (مزارعت پر کاشت کرنے کی وجہ سے) انہیں اپنی فصل کا بڑا حصہ جاگیر داروں کو دینا ہوتا تھا۔ اس وجہ سے یہ لوگ قرض لینے پر مجبور ہوتے اور سوائے اپنے جسم و جان کے ان کے پاس کوئی چیز رہن رکھنے کے لئے نہ ہوا کرتی تھی۔ ان لوگوں کو غلام بنا لیا جاتا۔
کنفیوشس (551 – 479BC) کے فلسفے اور اخلاقیات پر یقین رکھنے والے دیگر ممالک جیسے مشرقی چین، جاپان اور کوریا میں بھی غلامی موجود رہی ہے۔ اسمتھ کے مطابق ابتدائی طور صرف حکومت کو غلام بنانے کی اجازت دی گئی جو کہ جنگی قیدیوں اور دیگر مجرموں کو غلام بنانے تک محدود تھی۔ کچھ عرصے بعد پرائیویٹ غلامی اور جاگیردارانہ مزدوری کا نظام بھی آہستہ آہستہ پیدا ہو گیا۔
جس طرح ان تھذیبوں میں یہ غلامی والا سلسلہ جاری تھا ویسے ہی نبی علیہ السلام کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی یہ دستور رائج تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل غلام یا باندی بنانے کے مختلف طریقے لوگوں میں رائج تھے۔
پہلا:جنگی قیدیوں کو غلام یا باندی بنا لیا کرتے تھے۔
دوسرا:لوگ فقر وفاقہ کے باعث یا قرض کے دباؤ میں آکر اپنے بچوں کو یا خود اپنے آپ کو کسی کے ہاتھ فروخت کر دیتے اور اپنے آپ کو غلام یا باندی بنا لیتے۔
تیسرا :کسی جرم کی پاداش یا قمار بازی میں ہارے جانے کی صورت میں لوگ ہارنے والے یا مجرم کو غلام بنالیے جاتے تھے۔
پانچواں : یوں بھی کسی کو اغوا کر لے آتے اور زبردستی غلام یا باندی بنالیتے وغیرہ۔
اسلام نے غلامی کی ان تمام صورتوں سے روک کر صرف ایک صورت کو باقی رکھا۔ یعنی صرف کافروں کے ان مردوں اور عورتوں کو جو جنگ میں گرفتار کیے جائیں، اور مسلمان حاکم کو اختیار ہے کہ اگر مقتضائے مصلحت و سیاست بہتر سمجھے تو کافروں کے ان قیدیوں کو غلام/باندی بنالے۔
شيخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
غلامی کا سبب اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر اوران کے خلاف لڑائی ہے ، جب اللہ تعالی اپنے راستے میں اللہ تعالی کا کلمہ بلند کرنے کے لیے مال وجان اور ہر قسم کی قوت صرف کرنے والے مسلمان مجاھدین کو کفار پر غلبہ عطا فرماۓ تو اللہ تعالی ان کفار کو قیدی بنا کر مسلمانوں کا غلام بنا دیتا ہے لیکن اگر مجاھدین کا قائد مسلمانوں کی مصلحت کے لیے ان پر احسان کرتے ہوۓ یا پھر فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دے تو یہ اسکی منشأ ہے۔ [اضواء البیان للشنقیطی ( 3 / 387]

اور یہی طریقہ غلامی مسلم ممالک اور سلطنتوں میں رائج رہا اور اسکو قانونی حیثیت بھی حاصل رہی لیکن 20 ویں صدی کے اوائل میں ( پہلی جنگ عظیم کے بعد) ، مسلم سرزمین میں غلامی کو آہستہ آہستہ غیر قانونی قرار دے دیا گیا اور انھیں دبانے کی بڑی وجہ مغربی ممالک جیسے کہ برطانیہ اور فرانس کے دباؤ کی وجہ سے تھا۔ سلطنت عثمانیہ میں غلامی کا خاتمہ 1924 میں کیا گیا تھا جب ترکی کے نئے آئین نے شاہی حرم کو ختم کر دیا اور آخری اعلان کردہ افراد اور خواجہ سراؤں کو نو اعلان کردہ جمہوریہ کے آزاد شہری بنا دیا۔ 1929 میں ایران میں غلامی کا خاتمہ کر دیا گیا۔ غلامی کے خاتمے کے لیے آخری ریاستوں میں سعودی عرب اور یمن شامل تھے ، جنھوں نے برطانیہ کے دباؤ میں 1962 میں غلامی کا خاتمہ کیا۔ عمان میں 1970؛ اور موریتانیا 1905 ، 1981 میں اور اگست 2007 میں ہوا۔ اور باقی ممالک خصوصاً مغربی ممالک نے غلامی پر پہلے سے ہی پابندیاں لگادی تھیں برطانیہ نے ہی عالمگیر پابندی کا اعلان کیا تھا،

اس پابندی سے کچھ مغربیت سے مرعوب اور جدید طرز نظام سے خائف لوگوں نے یہ موقف بھی بیان کرنا شروع کردیا کہ ملک یمین شروع اسلام میں جائز تھی جیسا کہ دیگر قباحتیں شروع اسلام میں رائج تھیں جیسے شراب وغیرہ لیکن بعد میں ملک یمین کو بھی اسلام نے رفتہ رفتہ شراب کی طرح اسکی تمام صورتیں حرام قرار دی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے کبھی بھی غلام اور لونڈیوں کے ”خاتمہ“ کا اعلان نہیں کیا، اور قرآن و حدیث میں لونڈی اور غلام سے متعلق تمام احکامات آج بھی اسی طرح ”نافذ العمل“ ہیں، جیسے اسلام کے ابتدائی صدیوں میں نافذ تھے ۔
اسلام جس چیز سے روکتا اور منع کرتا ہے وہ ایک آزاد انسان کو پکڑ کر غلام بنانا اور اسے آگے فروخت کرنا ہے، یہ طرز عمل روز اول سے مسلمانوں کے لئے ”جائز“ نہیں رہا اور آج بھی نہیں ہے۔
جب مسلمانوں اور کافروں کے درمیان جنگ واقع ہوجائے اور مسلمانوں کے ہاتھوں کفار قیدی ہوجائیں تو کیا کیا جائے گا ؟
مختصر یہ کہ جب کفار قیدی ہوجائے تو مسلمان امیر/حاکم کے ساتھ قیدیوں کی بابت چار اختیارات ہیں
❍ یا تو قتل کر دیں
❍ یا فدیہ لے لیں
❍ یا احسان کریں
❍ یا اسے غلام بنالیں
اور یہ قول امام مالک، امام شافعی،امام احمد اور جمہور علماء رحمھم اللہ کا ہیں۔
(صاحب کتاب “آثار الحرب” نے فقھاء رحمھم اللہ کے اقوال تفصیل کے ساتھ نقل کئے ہیں اور ملک یمین کے تاحال جائز ہونے پر اجماع بھی ذکر کیا گیا ہے)
اگر کفار کے قیدیوں کو غلام اور لونڈیاں بنانا جائز نہیں تو سوال یہ ہے کہ ! پھر مذاہب اربعہ احناف، شوافع، موالک اور حنابلہ کے فقہاء رحمھم اللہ نے اپنے کتب میں جو غلاموں اور لونڈیوں کے بےشمار مسائل اور احکام ذکر کئے ہیں، اسی طرح فقہاء رحمھم اللہ کے کتب میں غلاموں اور لونڈیوں کی بابت جو سینکڑوں مسائل ہیں اور وہ مسائل جو فقہاء رحمھم اللہ نے اجتہادات کر کے مسائل نکالے ہیں، اگر یہ جائز نہیں تو ان سارے مسائل اور احکام کے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟
بلکہ فقہاء تو کیا احادیث میں غلاموں اور لونڈیوں کے جتنے احکام ہیں اس کے ساتھ کیا کریں گے؟

جو لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں وہ مغرب پرست ہیں یا ملحدین ہیں جنکا اپنا کوئی اصول حیات نہیں کوئی اصول اختلاف نہیں!
کتنی ہی صدیوں تک اسی یورپ نے افریقہ اور ایشیا کے کئی ملکوں اور پوری کی پوری قوموں کو غلام بنائے رکھا اور انکی عورتوں کا استحصال کیا آج بھی کئی ممالک پر انکا یہی استحصال جاری ہے، فرانس ہو برطانیہ ہو یا امریکہ سب سے بڑے استحصالی ہیں۔
اسلام نے ملک یمین کی اس وقت مروجہ تمام صورتیں ختم کیں اور صرف جنگ میں مفتوح قوم کو غلام بنانا جائز رکھا اور ویسے بھی جنگ میں ہاری ہوئی فوج کیساتھ کیا ہوتا ہے؟ یہ تو جنگ کا اصول ہے مفتوح قوم کیساتھ کیا کیا جائے اسکا فیصلہ فاتح ہی کرتا ہے۔
اور اسلام نے اس مفتوح قوم کے فیصلے میں بھی نرمی برتی ہے اسکو قتل کرنے کی بجائے یا قیدی بنانے کی بجائے اسکو غلام بنانے اور اسی وقت فدیہ لینے یا غلامی کے دوران مکاتبت کے ذریعے اسکو آزاد کرنے پر توجہ دلائی ہے،
جن لوگوں کو غلامی پر اعتراض ہے ان لوگوں کو عمر قید پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ گویا کہ ان کو لگتا ہے کہ کسی کو چار بائی چار (4×4) کے کمرے میں پوری زندگی باندھ کے رکھنا غلامی نہیں بلکہ آزادی ہی ہے۔
حالانکہ اسلامی معاشرہ ایک غلام کو باقاعدہ فیملی لائف گزارنے کا ماحول فراہم کرتا ہے، ان کو پہلے حقارت اور تذلیل کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اسلام نے عزت دی اور احترام انسانیت سکھلایا کون زیادہ عزت والا اور کون حقیر ہے؟ اسکا میعار ہی “تقوی” رکھا ( إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ) [الحجرات: 13]
بلکہ اسلام نے غلام اور لونڈی کے ناموں سے ہی منع کردیا اور انکے متبادل اچھے نام فتیً اور فتاۃ (جسکا مطلب ہے نوجوان لڑکا یا نوجوان لڑکی) دریافت کرائے تاکہ ذھنی طور پر انکا بھی ایک احترام اور مرتبہ ہو نبی علیہ السلام نے فرمایا “لا يقل أحدكم: عبدي وأمتي، وليقل: فتايَ وفتاتي” [رواه البخاري (3552) ومسلم (2249)]
پہلے غلاموں سے بھاری کام لئیے جاتے تھے جبکہ انکو کھانا پینا کم دیا جاتا اور انکے ساتھ ناروا سلوک بھی کیا جاتا اسلام نے اس کو ختم کیا اور انکے بھائی قرار دیا اور تلقین فرمائی کہ انکو بھی وہی کھلایا اور پلایا جائے جو تم کھاتےہو اور بھاری کام نہ دیا جائے اگر بامشقت کام دیا ہے تو ساتھ انکی معاونت کا بھی حکم دیا ہے۔ نبی علیہ السلام کا فرمان ملاحظہ فرمائیں:
هم إخوانكم وخَوَلُكُمْ ، جعلهم الله تحت أيديكم، فمن كان أخوه تحت يده، فليطعمه مما يأكل، وليلبسه مما يلبس ، ولا تكلِّفوهم ما يغلبهم ، فإنْ كلفتموهم، فأعينوهم” [رواه البخاري (30) ومسلم (1661)]
پھر زیادہ تر غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم دیا تاکہ موروثی غلام یا جو جنگ کے علاوہ دیگر ذرائع کیساتھ ملک یمین میں آئے تھے انکو بہانے بہانے سے کئی مواقع پر آزاد کرنے پر ابھارا ہے،
اس کیلئے تین کام کئے، ان کے آزاد کرانے پر بہت زیادہ ثواب کا وعدہ کیا گیا، تو لوگوں نے لونڈیوں کو آزاد کرانا شروع کر دیا، دوسرا کام کہ لونڈی کے ساتھ نکاح کے سسٹم پر زور دیا اور بیوی کے ہوتے ہوئے بھی لوگ لونڈیوں سے نکاح کرنے لگے اور اسی طرح کم وقت میں یہ سسٹم بلکل ختم ہی ہوگیا،
سب سے آخر میں مسلمان ہونا بھی لونڈی کے آزاد ہونے کے لیے بہانا بنا دیا، حالانکہ اس سے پہلے سینکڑوں غلام اور لونڈیاں اسلام قبول کر کے بھی غلام اور لونڈی ہی رہتے صحیح بخاری میں روایت موجود ہے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لونڈی سے پوچھا کہ “اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ آسمانوں پر، پھر فرمایا، میں کون ہوں؟ لونڈی نے جواب دیا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں”
تو رسول اللہ نے حکم دیا کہ اسے آزاد کردو کیوں کہ یہ مومنہ ہے، اور اسی طرح ایمان لانا بھی ان کے آزاد تصور ہونے کے لیے بہانا بن گیا.
اور پھر باقی جو غلام بچے تھے ان کیلئے بھی نبی علیہ السلام نے اپنے آخری ایام میں خصوصی نصحیت کی فرمایا: الصَّلاة، وما ملكت أيمانكم” نماز اور غلاموں کا خصوصی خیال کرنا [ رواه أحمد (11759)]

 

 عمیر رمضان