سوال (3385)

ایک بندہ ہر سال جنوری کی پہلی تاریخ پہ خیرات کرتا ہے، دعوت عام ہوتی ہے، تو کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟

جواب

اس کے بارے میں اس سے پوچھا جائے کہ وہ اس طرح کیوں کر رہا ہے، کیا وہ عیسائی کے سال کی ابتداء کی وجہ سے کر رہا ہے، اگر ابتداء سال کا جشن منا رہا ہے تو پھر غلط ہے، عیسائی کی مشابہت ہو جائے گی، اب وہ ہی وضاحت کر سکتا ہے کہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اگر اس کے پیچھے کوئی ایسا سبب ہے، جو کتاب وسنت، اور شعائر اسلام کے خلاف ہے یا کسی خاص باطل عقیدہ و نظریہ کی پیروی کا اظہار ہے تو بلاشبہ یہ حرام اور گناہ ہے، اگر ایسا نہیں ہے، بلکہ صرف اس خوشی میں ہے کہ نیا سال شروع ہوا ہے، اس سبب یہ عمل ہے، تو اگرچہ یہ نیکی نہیں کہلائے گا، البتہ اسے ہم حرام فعل قرار نہیں دے سکتے ہیں، اگر یہ عمل باقاعدہ نیت و ارادہ کے ساتھ نہیں بلکہ اتفاقا ہوا ہے تو کوئی حرج والی بات نہیں ہے، ہمیں جان لینا چاہیے کہ سال کے کسی بھی دن اور مہینہ کو الله تعالى نے ایسے کاموں کے لئے خاص نہیں کیا ہے، اس لیے آپ سال کے جس بھی دن اور مہینہ میں چاہیں سخاوت خیرات اور دعوت کا اہتمام کر سکتے ہیں، اس سے نکاح، ولیمہ وغیرہ جیسے امور خارج ہیں، کیونکہ وہ تاریخ و دن کسی خاص مہینہ و شخصیت و نظریہ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے ہیں۔
المختصر نئے سال کے آغاز میں اس طرح کے افعال وامور کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے ہے،
جو کسی باطل عقیدہ و نظریہ کی تقویت کا اور عام لوگوں کی عقیدہ وایمان کے بگاڑ کا ذریعہ بنے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ