سوال (560)

مرکز ایپ کے ذریعے کاروبار کی شرعی حیثیت

جواب

ایک پاکستانی ایپ ہے جس میں آن لائن چیزوں کو فروخت کر کے پیسہ کمایا جاتا ہے۔ آپ کے سامنے بہت سارے کیٹ لاگ آتے ہیں کپڑوں کے،مشین کے،میک اپ کے،شال کے،غرض ہر وہ چیز جو استعمال کی ہے روز مرہ کی زندگی میں ٬وہ ہمارے سامنے تصاویر کی صورت میں آتی ہیں یعنی کپڑے انگوٹھی جوتے یا کوئی بھی بیچنے کی چیز، سب کی الگ الگ بہت سے ڈیزائنگز میں تصاویر موجود ہوتی ہیں اور ہر تصویر کے نیچے ہر چیز کی تفصیلات لکھی ہوتی ہے۔ ساتھ میں رقم بھی لکھی ہوتی ہے۔ اب ہم ان تصاویر میں سے کسی بھی تصویر كو کسی کے ساتھ یاواٹس ایپ یا فیس بک وغیرہ کہیں بھی شیئر کرتے ہیں اور کہیں سے کوئی شخص ہمارے شیئر کی ہوئی تصاویر کو دیکھتا ہے اور ہمیں آرڈر دیتا ہے کہ فلاں چیز مجھے چاہیئے تو اب اُس شخص نے جو چیز آرڈر کی ہم اُس کی اصل رقم میں کچھ اپنا منافع رکھ کر کسٹمر کو چیز کی قیمت بتاتے ہیں ۔۔ مثلاً کسٹمر نے جس چیز کا ہمیں آرڈر دیا ہمارے شیئر کرنے کی وجہ سے ٬ وہ چیز اصل میں 800 کی تھی تو ہم اس میں 200 اپنا منافع رکھ کر اُسے وہ چیز ہزار کی بتاتے ہیں٬ پھر ہم اُس کا آرڈر اُس کا نام اُس کا ایڈریس ایپ کے اندر موجود آپشن میں لکھتے ہیں اُس کے بعد مرکز ایپ والے ہی لوگوں تک اُن کے ایڈریس پے اُن کا آرڈر پہنچا دیتے ہیں۔ ہمارا جو منافع ہم نے رکھا تھا مثلاً ٬200 تو ہمیں ہمارا منافع ایزی پیسہ٬جاز کیش یابینک اکاؤنٹ میں دے دیا جاتا ہے ۔۔ ڈیلیوری چارجز بھی کسٹمر یا مرکز ایپ والے دیتے ہیں ٬ ہم سے کُچھ پیسہ نہیں لیا جاتا، نہ سامان کا جو فروخت ہو رہا ہے نہ ڈیلیوری کا ۔ اور اگر کسٹمر کو چیز پسند نہ آئی وہ واپس بھی کر دیے تب بھی ہمیں ہمارا منافع ملےگا ۔ اور جب آرڈر کسٹمر تک پہنچے گا تو وہ ایپ کے نام سے نہیں بلکہ ہمارے نام سے جائےگا اور ہماری مرضی ہوگی ہم سارے کیٹالوگز کی تصاویر میں اپنا نام لکھ کر آگے شیئر کریں یا کسی کا نام بھی نہ لکھیں ۔۔ غرض مرکز ایپ ہمیں اُن کے ایپ کی چیزیں فروخت کرنے کے پیسے دیتا ہے اور منافع ہمیں کس چیز میں کتنا چاہیئے اِس کا اختیار بھی دیتا ہے ۔ برائے مہربانی بتائیں یہ کام اور اس سے پیسے کمانا کیا جائز ہے اور اگر نہ جائز ہے تو کیوں ؟ اس کی کوئی وجہ نہ جائز یا حرام ہونے کی ؟
اس طریقہ کار کو ڈراپ شپنگ کہتے ہیں، اس پر لجنۃ العلماء للإفتاء کے تفصیلی فتاوی جات ہیں کہ اس کی مروجہ صورت درست نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں جو شخص خود کو مالک شو کرتا ہے وہ اس کا ملک نہیں ہوتا، اسی طرح جس چیز کو بیچنے کی وہ بات کرتا ہے، وہ چیز اس کی ملکیت اور قبضے میں نہیں ہوتی، شریعت میں ایسی خرید و فروخت سے منع کیا گیا ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ