سوال :شیخ محترم آپ اپنے نام سے آگاہ فرمائیں؟

جواب:میرا نام عبدالحلیم بن محمد بلال ہے۔ عموما نام تو یہی ہے لیکن قاری کا لفظ بچپن سے ہی گھر کی طرف سے معروف کردیا گیا تھا،اس لیے قاری عبدالحلیم زیادہ استعمال ہوتا ہے،لیکن شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ میں عبدالحلیم نام کا اندراج ہے۔

سوال : آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟

جواب:میری پیدائش 1965ء میں ضلع بہاولنگر تحصیل فورٹ عباس گاؤں 311 HR میں ہوئی،  کاغذات  میں یہی تاریخ پیدائش ہے،جبکہ یونین کونسل میں اکتوبر 1964ء ہے۔

سوال :شیخ محترم آپ اپنے والد کے نام اور پیشہ سے آگاہ فرمائیں؟

جواب:میرے والد صاحب کا نام محمد بلال ہے آپ جامعہ محمدیہ اوکاڑہ سے فارغ التحصیل ہیں، آپ کے اساتذہ میں سے سب سے ممتاز استاد حافظ عبداللہ بڈھیمالوی رحمہ اللہ ہیں جو جماعت کے کبار علماء میں سے تھے جن کے پاکستان اور بیرون پاکستان کثیر شاگرد ہیں۔ مولانا محمد قدرت اللہ فوق صاحب( فیصل آباد) ، علی محمد صاحب جنہیں نومسلم کہا جاتا تھا، یہ جامعہ سلفیہ پڑھاتے تھے ، دونوں والد محترم کے ساتھیوں میں سے ہیں، حافظ محمد عبداللہ بھٹوی بھی والد صاحب کے ساتھیوں میں سے ، اور میرے استاد ہیں۔

اسی طرح مولانا عبداللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ والد صاحب کے ساتھی ہیں، لیکن ان سے کلاس میں ایک سال آگے تھے، والد محترم کے ان کے ساتھ کافی تعلقات تھے، آپس میں بے تکلفی تھی، اور علم میں بھی ان کے برابر کے تھے،لیکن علم چونکہ پڑھنے پڑھانے اور استعمال کرنے سے بڑھتا ہے،ورنہ کم ہوجاتا ہے، تو یہی معاملہ والد محترم کے ساتھ ہوا، آپ پڑھنے کے بعد گاوں چلے گے، آپ زمیندار تھے، وہاں گاوں میں ایک مسجد میں بچوں کی درس و تدریس اور ترجمہ قرآن کی کلاس لیتے تھے، باقاعدہ کسی جامعہ میں تدریس سے وابستہ نہیں ہوے ،یوں پھر علم آگے نہ بڑھ سکا۔

سوال :شیخ محترم آپ اپنے نانا محترم کے حالات زندگی سے آگاہ فرمائیں؟

جواب: میرے نانا محترم کا نام مولانا محمد عبداللہ ہے ، بہت بڑے عالم تھے، اور دہلی کے فارغ التحصیل تھے، آپ حافظ عبداللہ بہاولپوری کے بہت اچھے دوست تھے، تقریبا ہم عمر تھے، آپس میں بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔نانا جی کی کافی زمین تھی حافظ عبداللہ بہاولپوری کو اکثر اوقات پھل و دیگر چیزیں وغیرہ بھیجتے رہتے تھے اس لیے ان کے پاس اکثر آنا جانا رہتا تھا۔

نانا جان نے مدرسہ رحمانیہ دہلی میں ،اپنے استاد کی طرف سے اجازۃ الروایۃ اور سند وغیرہ کو خود ہی لکھا تھا، کیونکہ ان کا خط بہت اچھا تھا اور عربی زبان میں کافی عبور تھا ۔اکثر جب حج پر  مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جاتے تو وہاں کے شیوخ کیساتھ ملاقاتيں کرتے تھے ،تب مکہ میں مولانا عبدالرحمن افریقی ہوتے تھے، بہت مشہور عالم تھے، ان کے ساتھ نانا جی کے کافی تعلقات تھے،اسی طرح مولانا محمد امین شنقیطی ہوتے تھے، ان سے بھی نانا کی کافی ملاقاتیں رہی ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے میں بہت چھوٹا ہوتا تھا، ابھی میں نے کتابیں وغیرہ پڑھنا شروع نہیں  کی تھیں، بلکہ حفظ کرتا تھا، اس وقت نانا جی مجھے علمی نکات بتایا کرتے تھے۔

میرے نانا جی نے ہی میرا نام ’قاری‘ رکھا تھا، ان کو بہت شوق تھا کہ میں اپنے نواسے کو ’حافظ و عالم‘ بناؤں گا۔ہمارے گاؤں سے تقریبا 5 میل کی مسافت پر مڑوٹ ایک چھوٹا سا شہر ہے، اس کے قریب315 گاؤں ہے ،وہاں نانا جی کی رہائش ہوتی تھی ،اس وقت اس گاؤں میں بہت کم اہلحدیث بستے تھے،

بلکہ ہمارے گاؤں میں بھی دو یا تین گھر اہلحدیثوں کے تھے،بریلوی و دیوبندی حضرات کی کثرت تھی،

میرے ناناجی 1994 میں وفات پا گے تھے۔

سوال :شیخ محترم اپنا ابتدائی تعلیم سے تکمیلِ تعلیم کا سفر بیان فرمائیں۔

جواب:میں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں 311 HR تحصیل فورٹ عباس میں حاصل کی،اس کے بعد قرآن مجید کو حفظ کرنے کے لیے ہارون آباد میں دیوبند مکتبِ فکر کے ایک مشہور مدرسہ میں داخلہ لیا،پھر تجوید کے لیے ایک  اورادارے قاسم العلوم (فقیر والی) میں داخلہ لیا ، اور ایک سالہ کورس مکمل کیا،اس وقت ہمارے جماعتی مدارس میں قراءت اور تجوید کا اہتمام نہیں کیا جاتا تھا،بالخصوص ہمارے علاقے میں اہلحدیثوں کا ایسا کوئی ادارہ موجود نہیں تھا۔یہ 1977ء کی بات ہے جب بھٹو کی حکومت تھی ،اس کی حکومت کے خلاف جلوس وغیرہ نکلتے تھے،تب سب مدارس کے طلبہ جلسے جلوسوں  میں شریک ہوتے تھے،ہم بھی اپنے اساتذہ کیساتھ  جایا کرتے تھے۔

1980ء کے آغاز میں ابتدائی دنیاوی تعلیم اور قرآن مجید کے حفظ کرنے کے بعد دینی تعلیم  حاصل کرنے کے لیے میں جامعہ تعلیمات اسلامیہ فیصل آباد چلاگیا،اس ادارے میں دیوبندی اور اہلحدیث ، دونوں طرح کے اساتذہ مل کر پڑھاتے تھے،ابھی ہمارا ایک سال مکمل ہونے میں دو ماہ رہتے تھے کہ دونوں مسالک کے اساتذہ کے درمیان کچھ لڑائی جھگڑا ہوگیا ، لہذا ہم  تمام ہم جماعت ایک گروپ کی شکل میں لاہور جامعہ لاہور اسلامیہ ( رحمانیہ) میں آکر داخل ہوگئے۔

ہمارا 30 کے قریبا لڑکوں پر مشتمل ایک گروپ تھا جس میں کچھ فیصل آباد کے لڑکے شامل تھے،  انہیں میں عطاء الرحمن ثاقب شہید ،(جو تالیفات میں علامہ احسان الہی ظہیر کے ساتھی تھے)،اور مولانا خالد سیف   شہید(جو افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئےتھے)  جیسی شخصیات بھی تھیں۔

جامعہ رحمانیہ میں ہم نے پہلے سال کے امتحانات دیے، پھر دوسرے سال کی کلاس میں تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔1980 سے لیکر 1984 تک میں نے جامعہ رحمانیہ میں تعلیم حاصل کی،1404 بمطابق 1984 میں جامعہ رحمانیہ میں کلیۃ میں پڑھ رہا تھا، کہ میرا جامعہ اسلامیہ مدینہ میں داخلہ  ہوگیا،جامعہ رحمانیہ سے مولانا شفیق مدنی صاحب حفظہ اللہ، مولانا عبدالقوی لقمان حفظہ اللہ، ہم تین لوگوں کا داخلہ ہوا تھا ۔

اس وقت حکومت پاکستان نے سعودی جامعات کے سٹوڈنٹس کے لیے NOC کو لازمی کردیا تھا، جس کے لیے ہمیں کافی مسائل درپیش ہوئے، اور بہت تاخیر ہوگئی،آخر کار سعودی حکومت نے سفارت خانے کو ایک لیٹر بھیجا کہ ان لڑکوں کے ویزے  ویسے ہی لگادیےجائیں۔ اس وقت تقریبا آدھی کلاس گزر چکی تھی مطلب ایک سمسٹر مکمل ہوچکاتھا،جس کی وجہ سے ڈائریکٹ ہمارا داخلہ کلیہ میں ہوا،میں اور شفیق مدنی صاحب کلیہ شریعہ میں داخل ہوئے، جبکہ عبدالقوی لقمان صاحب کلیہ الدعوة  گئے۔

جامعہ اسلامیہ میں ہم نے چار سال تعلیم حاصل کی ،ہم تینوں ساتھیوں نے 1988 ءمیں جامعہ اسلامیہ مدینہ  سے فراغت حاصل کی۔شفیق مدنی صاحب اور عبدالقوی لقمان صاحب تو پاکستان واپس آگئے،لیکن مجھے عبدالرحمن مدنی صاحب نے حکم دیا تھا کہ آپ ابھی وہاں ہی رکے رہیں، ہم نے سعودیہ کے مشائخ وعلماء سے ملاقاتيں کرنی ہیں۔ یہ دورانیہ تقریبا 6 ماہ پر مشتمل تھا اس دوران جامعہ کے بعض اساتذہ کیساتھ میں علمی کام میں شریک ہوگیا ،ہمارے جامعہ کے ایک استاد کا PHD کا مقالہ عینی کی اسماء الرجال  مشہور کتاب پر تھا ان کے ساتھ اس حوالے سے علمی کام کرتا رہا۔

1988 کے آخر میں میں پاکستان آگیا ،یہاں آکر تدریس ، دعوت و تبلیغ سے وابستہ ہوگیا۔

سوال :آپ کے اساتذہ اور شاگردوں میں کون کون سے نام آتے ہیں؟

جواب:اگرچہ میرے اساتذہ کی ایک طویل فہرست ہے ،لیکن میں اختصار کیساتھ صرف معروف اساتذہ کے ناموں کا ذکر کروں گا ،ان میں اکثر اللہ سبحانہ و تعالی کے پاس جاچکے ہیں اللہ سبحانہ و تعالی ان کی بخشش فرماے اور جو زندہ ہے اللہ سبحانہ و تعالی انہیں صحت و عافیت والی زندگی عطا فرماے۔

جامعہ رحمانیہ میں میرے مشکوة کے استاد مولانا فاروق اصغر صارم رحمہ اللہ تھے ،سنن ترمذی کے  استاد حافظ نعیم الحق نعیم رحمہ اللہ تھے، میں اور شفیق مدنی صاحب، ان کی کافی خدمت کرتے تھے، اور ان کے بہت زیادہ قریب رہتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ طلبہ کیساتھ حسن سلوک سےپیش آتے تھے ، خصوصا ان طلبا پر بہت شفقت فرماتے، جو بہت محنت کرکے علم میں رسوخ حاصل  کرنے کی کوشش کرتے تھے اور ہر وقت علم کے حریص رہتے تھے۔حافظ نعیم الحق نعیم صاحب ایک ہی وقت میں بہترین مقرر ، شاعر ، قاری ، خطیب اور بہترین استاد تھے۔

 شیخ الحدیث حافظ محمد عبداللہ بھٹوی حفظہ اللہ بھی  میرے اساتذہ میں سے تھے، جیسا کہ والدِ محترم کے تذکرہ میں یہ بات گزری ہے۔اسی طرح  شیخ الحدیث مولانا صادق خلیل (فیصل آباد)  رحمہ اللہ بھی ہمارے  استاد تھے۔ ہمارے ایک استاد، جن سے میں بہت متاثر تھا، مولانا عبدالرحمن عظیمی رحمہ اللہ ہیں، جو کہ کروڑ پکا کے تھے۔محدث العصر العلامہ ، حافظ ثناء اللہ مدنی رحمہ اللہ بھی  میرے بہت اچھے اور مشفق استاد تھے۔مولانا ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب جو کہ جامعہ رحمانیہ کے مدیر بھی تھے،  وہ بھی ہمیں پڑھاتے رہے ہیں۔

مولانا عبیدالرحمن عبید رحمہ اللہ ،نے ہمیں فتح المجید پڑھائی تھی، گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے، روزانہ پڑھانے کے لیے گوجرانوالہ سے لاہور آتے تھے۔مولانا عبدالحی انصاری( فیصل آباد والے) بھی میرے  استاد تھے، جو کہ اب شیخ الحدیث مولانا ارشاد الحق اثری صاحب کیساتھ مل کر علمی کام کررہے ہیں۔

مولانا عتیق اللہ عتیق صاحب بھی میرے استاد تھے، اب کافی سالوں سے فالج کے مرض میں مبتلا ہیں، اللہ سبحانہ و تعالی انہیں شفاء کاملہ عاجلہ عطا فرماے۔ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ بھی ہمارے استاد تھے اور ہمارے ساتھ کافی محبت کرتے تھے،ہم نے ان سے شرح ابن عقیل پڑھی تھی۔آپ وفات سے قبل جب آخری بار سعودی عرب تشریف لائےتھے تو میرے پاس ہی ریاض میں تقریبا 10 دن قیام کیا تھا، میں ان کو مختلف مشایخ کے پاس ملاقاتوں کے لیے لیکر جاتا رہا۔

 شیخ الحدیث  مولانا عبدالسلام کیلانی رحمہ اللہ، ان سے بھی میں نے جامعہ رحمانیہ میں صحیح البخاری پڑھی تھی۔

میں پہلے ذکر کرچکا ہوں کہ ہمارے ایک استاد مولانا عبدالرحمن عظیمی رحمہ اللہ تھے میں ان کی شخصیت سے بہت متاثر تھا، ان کا ایک واقعہ میں یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ جب ہم جامعہ رحمانیہ پڑھتے تھے تو جمعرات کو ہمیں نو یا ساڑھے نوچھٹی ہوجاتی تھی ایک دن مجھے کہنے لگے!!! عبدالحلیم آج میں نے مولانا عطاء اللہ حنیف سے ملاقات کرنے جانا ہے، کیا آپ  بھی ساتھ چلو گے؟تب میں جامعہ میں دوسری کلاس میں پڑھتا تھا،  میں نے خوشی خوشی  اثبات میں جواب دیا۔ہم ان کو ملنے چلے گئے ،مولانا صاحب تیسری یا چوتھی منزل پر چھت میں دھوپ میں بیٹھے ہوئے تھے ،تب سردیوں کا موسم تھا، استاد محترم عظیمی صاحب  کی ان سے تقریبا دو گھنٹے مسائل پر گفتگو ہوتی رہی، کچھ دوسرے مسالک پر بھی بات چیت ہوئی،

میں چونکہ اس وقت علم و عمر میں بہت چھوٹا تھا،  خاموشی کے ساتھ ان شیوخ کی باتوں کو سنتا رہا،جب مجلس ختم ہوئی، ہم نیچے آئے،تو میرے استاد، جو ان کے شاگرد تھے، مجھے پوچھنے لگے: بتائيں ایک طرف کئی مہینوں کی محنت و مطالعہ ہو، اور دوسری طرف یہ دو گھنٹوں کی ملاقات ،ان میں سے کونسی چیز زیادہ فائدہ مند ہے؟میں نے  عرض کیا: یقینا یہ دو گھنٹوں کی ملاقات بہت قیمتی ہے۔

1984ء میں میں مدینہ یونيورسٹی چلے گیا وہاں اگرچہ ہر سال استاد بدلتے تھے لیکن چند معروف و مشہور اساتذہ کے نام درج ذیل ہیں:

شیخ سعود بن عبدالعزیز الخلف جو کہ پاکستان میں بھی کئی بار تشریف لاچکے ہیں۔  شیخ انیس الرحمن  جو ہمارے  اصول حدیث کے استاد تھے، آپ اصلا انڈونیشا کے ہیں، لیکن سعودی نیشنیلٹی ہولڈر ہیں۔ اپنے فن میں بڑے ماہر تھے ہم ان کی شخصیت سے بہت متاثر تھے۔شیخ محمد بن محمد المختار ہمارے فقہ کے استاد تھے، اس وقت آپ کا شمار سعودیہ کے مشہور و معروف علماء میں ہوتا ہے، ان سے ہمارا کافی تعلق تھا بسا اوقات ہم فارغ وقت میں کلاس کے علاوہ گھنٹہ گھنٹہ مسائل پر گفتگو کرتے، جس کا بہت فائدہ ہوتا تھا۔شیخ عمر المختار بھی ہمارے فقہ کے استاد تھے۔

عربی گرائمر و ادب کے ہمارے تمام اساتذہ مصری تھے، جو کہ سب کے سب اپنے فن میں ماہر تھے، بلکہ  اپنے موضوع و فن میں امام سمجھے جاتے تھے،ان میں ہمارے ایک استاد دکتور حمزہ تھے جنہوں نے  ہمیں   شرح ابن عقیل کے قواعد کی بڑے اچھے طریقے سے تطبیق کروائی تھی،  اور سبق ایسے یاد کرواتے تھے جیسے سورت فاتحہ یاد کروائی جاتی ہے۔اس طرح جامعہ اسلامیہ میں ’خارجی نشاط ‘ میں ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی رحمہ اللہ کے ہم شاگرد رہے ہیں، اکثر اوقات عصر یا مغرب کے بعد پروگرام ہوتے تھے جنہیں  ’النشاط الخارجی‘ یعنی ’غیر نصابی سرگرمیاں‘ کہا جاتا تھا، جس میں ہم بڑے ذوق وشوق سے شریک ہوتے تھے۔

مولانا عبدالقادر سندھی رحمہ اللہ بھی ہمارے استاد ہیں، ان کے پاس جامعہ اسلامیہ میں پڑھنے کے دوران ہمارا آنا جانا رہتا تھا، ان سے  ہم نے بہت استفادہ کیا تھا،پھر ان کی  بعض کتابوں کی ہم نے ’تصحیح‘ بھی کی تھی،مسجد نبوی میں ہم نے جن شیوخ سے استفادہ کیا ،ان میں  شیخ عبدالمحسن العباد  بھی ہیں،جنہیں ہم ’عالم مدینہ‘ کہا کرتے تھے۔ ایک بہت بڑے عالم شیخ عطیہ محمد سالم  ہیں، جن کا زیادہ تر میلان مالکی مذہب کی طرف تھا۔شیخ عمر الفلاتہ جن کا تعلق نائجیریا سے تھا، ہم ان کے دروس میں اکثر شریک ہوتے تھے،’فلاتہ‘ نائجیریا میں ایک بہت بڑا خاندان ہے۔انہی شیخ کے بیٹے محمد عمر الفلاتہ یونيورسٹی میں ہمارے طرق التدریس کے استاد تھے۔اسی طرح شیخ ابن باز ، شیخ محمد بن صالح عثیمین اور شیخ البانی جب مدینہ منورہ تشریف لاتے تو ان کے حلقات قائم ہوتے تھے، جن میں ہم شرکت کیا کرتے تھے۔

جامعہ اسلامیہ میں میرے کلاس فیلوز میں مولانا شفیق مدنی صاحب تھے ہمارا آپس میں اتنا پیار تھا کہ اکثر لوگ سمجھتے تھے کہ   ہم آپس میں بھائی ہیں۔مولانا عبدالقوی لقمان صاحب جو کیلانی بھی ہمارے ساتھی  ہیں،ہم تینوں کا داخلہ بھی اکٹھا ہوا تھا اور پاکستان سے سعودیہ کا سفر بھی تینوں نے اکٹھا کیا تھا۔مولانا عبدالصمد رفیقی رحمہ اللہ یہ لاہور میں تو ہمارے کلاس فیلو تھے لیکن جامعہ اسلامیہ میں ایک سال پیچھے ہوگئے تھے، کیونکہ ان کا ایک سال لیٹ داخلہ ہوا تھا۔مولانا اسحاق زاھد حفظہ اللہ( کویت والے )ہم سے دو سال پیچھے تھے،مدینہ یونيورسٹی میں ہمارے مشہور کلاس فیلوز میں شیخ اصغر علی امام مہدی  ہیں، جو اس وقت ہندوستان میں پوری جماعت اہلحدیث کے امیر ہیں،ان کے ساتھ دوستانہ تعلق تھا، اب بھی رابطہ رہتا ہے،مولانا صفی الرحمن ہمارے تعلیمی دورانیہ میں ہی جامعہ اسلامیہ ’مرکز خدمۃالسنہ‘ میں آئے تھے،میں اور مولانا اصغر علی امام مہدی ،انہیں ائیرپورٹ سے اپنی گاڑی میں لاے تھے،  الحمدللہ شیخ کے ساتھ بھی ہمارے اچھے تعلقات رہے۔

ہمارے وقت میں جامعہ اسلامیہ میں پڑھنے والے طالبعلموں میں سے حافظ محمد شریف (فیصل آباد) اور حافظ محمد رفیق (ملتان) بھی ہیں، جنہیں بعد میں اللہ تعالی نے علم وفضل اور شہرت سے نوازا۔عبدالغفار ریحان (ناروال ضلع سیالکوٹ)  یہ ہم سے بڑا پیار کرتے تھے ، بلکہ  چند دن کے ہمارے استاد بھی ہیں،یہ حافظ شریف صاحب کے کلاس فیلو تھے، جامعہ سلفیہ سے ان کا اکٹھے ہی ایک ساتھ داخلہ ہوا تھا ۔مولانا عبدالرشید راشد بھی جامعہ اسلامیہ میں اس وقت تعلیم حاصل کررہے تھے، جو بعد میں جامعہ رحمانیہ میں تدریس کرتے رہے ہیں، عرصہ ہوا وفات پاچکے ہیں، اللہ پاک ان کی بخشش فرماے۔اسی طرح مولانا مفتی عبدالحنان، جو اس وقت جامعہ سلفیہ میں فتوی دیتےہیں، اگرچہ عمر میں ہم سے کافی بڑے تھے، لیکن جامعہ اسلامیہ میں کلیۃالشریعہ میں ہمارے ساتھ ہی پڑھتے تھے،ان کے ساتھ بہت بے تکلفی اور پیار محبت تھا، کبھی کبھار ہم کشتی بھی کیا کرتے  تھے۔

اسی طرح ہم سے سینئر ساتھیوں میں  جو علم و عمر میں ہم سے بڑے تھے،شمس الدین افغانی رحمہ اللہ ہیں، جن کا  ایم فل کا مقالہ ’الماتریدیۃ‘ اور پی ایچ ڈی کا مقالہ ’جہود علماء الحنفیۃ فی ابطال عقائد القبوریۃ‘ بہت مشہور ہوا۔ ہندوستان کے معروف عالم ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالجبار  الفریوائی، جنہوں نے کئی ایک کتابیں تصنیف کی ہیں، وہ بھی تب جامعہ اسلامیہ میں موجود تھے۔ہمارے مشفق ساتھی قاری ابراہیم میرمحمدی اگرچہ ہم سے کافی بڑے تھے،  لیکن اس وقت جامعہ اسلامیہ میں ہی تھے ، ان کے ساتھ بھی ایک تعلقِ خاص تھا، بعد میں جامعہ رحمانیہ میں ہم اکٹھے پڑھاتے بھی رہے ہیں۔

عرب ممالک سے ہمارے ساتھیوں میں سے شیخ صالح الدغیثر  اچھے عالم اور قاضی ہیں،شیخ سلیمان الرحیلی کلیۃ الشریعہ میں ہمارے کلاس فیلو تھے،سوڈان کے ایک عالم تھے، یاسین محمود یاسین،  رحیلی  اور یہ دونوں ذہانت و فطانت  میں ہم سے بہت  فائق تھے، کلیہ میں ہمیشہ دونوں کی پوزیشن آتی تھی، اور آپس میں دو تین نمبرکا ہی فرق ہوتا تھا۔یاسین محمود یاسین میرے بہت اچھے اور مخلص دوست تھے، جامعہ اسلامیہ میں فراغت کے بعد کچھ سال سوڈان میں’ انصار السنہ‘  میں تدریس اور دعوتی کام کرتے رہے پھر ایک حادثے میں   فوت ہوگئے، اللہ تعالی مغفرت فرمائے، بہت پکا سلفی تھا۔

1988 کے آخر میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن لوٹا ،اور  1889 کے شروع سے جامعہ رحمانیہ میں باقاعدہ تدریس کا آغاز کردیا،جامعہ میں  تحفیظ القرآن کی جملہ کلاسز میرے زیر نگرانی تھی، مکتبہ رحمانیہ ماڈل ٹاؤن 99 جے وہ بھی میری نگرانی میں تھا،ہائی کورٹ کے لیے مولانا عبدالرحمن مدنی کے مضامین بھی میں تیار کرتا تھا،

اسی عرصہ میں مولانا عبدہ الفلاح ،جو حافظ ثناء اللہ مدنی، مولانا عبدالرحمن مدنی اور میرے والد صاحب کے استاد تھے، وہ لاہور آے ، انہوں نے عربی میں صحیح مسلم، کتاب الایمان پر کچھ کام کیا تھا، میں بھی اس علمی کام میں ان کے ساتھ شریک رہا،اور ان کا کھانا ہمارے گھر سے تیار ہوکر آتا تھا۔ الحمدللہ

پاکستان میں میرے  درج ذیل شاگرد ہیں:

سید توصیف الرحمن راشدی ، قاری صہیب احمد میرمحمدی ، شاہد عزیز ، مولانا اجمل بھٹی (پیغام ٹی وی )،مولانا شفیع طاہر صاحب ،جو جامعہ رحمانیہ میں مدرس ہیں ۔اس طرح مولانا عبدالرحمن مدنی کے سارے بیٹے ڈاکٹر حافظ حسین مدنی ، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ، ڈاکٹر حافظ انس مدنی ، ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی، میرے شاگرد ہیں۔ مدنی صاحب کے  بھائی حافظ عبدالوحید روپڑی کے دونوں بیٹے عبدالعلیم اور عبدالسمیع، بھی میرے شاگرد ہیں، انہوں نے پورا قرآن پاک ترجمے کیساتھ مجھ سے پڑھا ہے۔میرے دو چھوٹے بھائی، قاری شفیق ،قاری عبدالحنان ، بھی میرے شاگرد ہیں۔

عربی ادب و قواعد سے مجھے شروع سے ہی خاص شغف تھا، جس کی بنا پر میں نے اپنے شاگروں پر کافی محنت کی، جس کا وہ اعتراف بھی  کرتے ہیں، قواعد ، گرائمر، فصول اکبری اور علم النحو وغیرہ اس طرح یاد کرواتا تھا، جیسے سورت فاتحہ یاد کروائی جاتی ہے۔

جب میں جامعہ رحمانیہ میں پڑھا رہا تھا تو اس وقت  درج ذیل اساتذہ جامعہ میں پڑھایا کرتے تھے،جن میں سے بعض ہمارے اساتذہ ہیں:

سعید مجتبی سعیدی صاحب ، شفیق مدنی صاحب ، عبدالقوی لقمان  صاحب، مولانا زید احمد صاحب ، مولانا رمضان سلفی صاحب ،  مولانا عبدالسلام فتح پوری ، عبدالرشید خلیق صاحب ، اسحاق زاہد صاحب ، محدث العصر ثناء اللہ مدنی صاحب، جو کہ ہمارے مایہ ناز استاد ہیں ۔قاری ابراہیم میرمحمدی ، اُس وقت کلیۃالقرآن میں مدیر تھے اور میں ان کا وکیل ( نائب) تھا۔ مولانا رحمت اللہ رحمہ اللہ  ایک دیوبندی استاد تھے، بہت نیک اور اچھے انسان تھے ،مسلکی تعصب سے پاک تھے۔ اسی طرح مولانا ہدایت اللہ رحمہ اللہ  بھی ہمارے ساتھ پڑھاتے تھے۔یہ  مختصرا عرض کیا، ورنہ  اور بھی  مدرسین ہیں، جن سے رفاقت رہی۔

سوال :شیخ محترم آپ کا تعلیم و تدریس کا دورانیہ تقریباً کتنا ہے؟

جواب: تعلیم و تعلم یعنی سیکھنے کا سلسلہ پاکستان میں 9 سال جاری رہا، جس میں حفظ  وتجوید بھی شامل ہے۔حفظ کے بعد جامعہ رحمانیہ میں 5 سال سے کچھ عرصہ زائد تعلیم حاصل کی،پھر جامعہ اسلامیہ مدینہ یونيورسٹی میں داخلہ ہوگیا، یہاں  کلیہ شریعہ میں 4 سال تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ ملا، اس طرح یہ کل 13 سال بنتے ہیں۔

1989ء کے شروع میں جامعہ رحمانیہ سے باقاعدہ تدریس کا آغاز کیا، اور   1995ء تک تقریبا سات سال یہاں پڑھاتا رہا، پھر بعد میں دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں سعودی عرب چلا گیا۔

سوال :شیخ محترم آپ کی شادی کب ہوئی اور اولاد کتنی ہے؟

جواب: (مسکراتے ہوئے ) شادی نہیں، شادیوں کا لفظ بہتر رہے گا۔ میری پہلی شادی 1983 میں خالہ زاد سے ہوئی،اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کے بطن سے ایک بیٹا نوازا، لیکن وہ بچپن میں ہی وفات پاگیا، پھر اس سے اولاد نہیں ہوئی۔ دوسری شادی مدینہ یونيورسٹی سے فراغت کے بعد فروری 1989 میں ہوئی،اس سے اللہ سبحانہ وتعالی نے ایک بیٹے اور تین بیٹیوں سے نوازا، بہت نیک ، صالحہ اور مبلغہ خاتون تھی، 2001ء میں اس کی وفات ہوگئی، اللہ تعالی بخشش فرمائے۔پھر تیسری شادی 2001ء میں اسی کی چھوٹی بہن سے   ہوئی،جس سے اللہ سبحانہ و تعالی نے 2 بیٹے اور 2 بیٹیوں سے نوازا۔پھر 2013 میں چوتھی شادی کی ،جس سے اللہ سبحانہ وتعالی نے 2 بچیوں سے نوازا۔ یوں کل چار شادیاں کی ہیں، پہلی دو بیویاں وفات پاگئی ہیں، اور بعد والی دو حیات ہیں، اور کل دس بچے ہیں۔ الحمدللہ

سوال :دعوت و تبلیغ کے میدان میں خدمات کے حوالے سے کچھ فرمائیں۔

جواب:جامعہ رحمانیہ لاہور میں تدریس کے ساتھ ساتھ خطبہ جمعہ بھی دیا کرتا تھا، بعد میں جب 1996 میں سعودی عرب چلا گیا، تو وہاں دوسرے علمی کام کے ساتھ ساتھ مکاتبِ     جالیات ، اوردعوة سنٹرز میں دروس وغیرہ  کا سلسلہ شروع ہوگیا، جبکہ خطبہ جمعہ سب سے پہلے ’بن لادن ‘کمپنی میں پھر ایک اور کمپنی میں، اور اب ’المشرق ‘ نامی کمپنی میں پڑھاتا ہوں۔جب پاکستان آتا ہوں تو یہاں نماز فجر کے بعد یومیہ درس، اور جمعہ کا خطبہ ہوتا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب ’’ إدارة المساجد والمشاریع الخیریة‘‘ کیساتھ  وابستہ ہوا، تو   میں ’لجنۃ آسیا‘ یعنی ’ ایشیا کمیٹی‘ کا جنرل سیکرٹری تھا، جس میں عہدۃً اور عملاً سارے کام میرے ہی سپرد تھے۔

سوال :تصنیف و تالیف کے میدان میں آپ  نے کیا خدمات سرانجام دی ہیں؟

جواب:پاکستان میں دورانِ تدریس دار السلام کی طرف سے چھپنے والی مختلف اردو  کتابوں کی نظرثانی کرنے کا موقعہ ملا، جیسا کہ منہاج المسلم وغیرہ۔سعودی عرب جاکر شیخ عبداللہ محمد المعتاز کے ساتھ منسلک ہوگیا، کیونکہ وہ ’’ إدارة المساجد ‘‘ کے مؤسس وبانی ، اور اس وقت دارالسلام کے مالک بھی تھے۔ تفسیر سے متعلق ان کی ایک کتاب ہے،”الفوائد الحسان من آیات القرآن“  جو کہ پانچ جلدو ں میں چھپی، اس ساری کتاب کی نظر ثانی اور اصلاح میں نے ہی کی تھی،حتی کہ بعض جگہوں پر اسلوب کو تبدیل کیا، اور بعض نحوی   اغلاط کو درست کیا ۔

اسی طرح ’المصباح المنیر جو کہ “تفسیر ابن کثیر” کا اختصار ہے، اس پر ہم چار لوگوں کے گروپ نے کام کیا، جبکہ ہمارے سرپرست اعلی مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ تھے، دارالسلام ریاض نے اسے پبلش کیا تھا۔

اسی طرح ”تفسیر السعدی“ پر ہم نے علمی کام کیا تھا ہم چار لوگوں کا مجموعہ تھا،اس تفسیر کا اسلوب بڑا عمدہ اور نفیس ہے ، پروف ریڈنگ میں نے کی، اورتقریبا 20 جگہوں پر   قواعدِ عربیت کی روشنی میں   اصلاحی حواشی لکھے،یہ تفسیر پہلے ڈاکٹر عبدالرحمن بن معلا اللویحق  کی تحقیق سے چھپ رہی تھی، جب ہم نے اس پر کام فائنل کرلیا،تو تمام ساتھی کہنے لگے کہ آپ ہی  محقق کے پاس جائیں، چونکہ تعلیقات آپ نے لگائی  ہیں۔ لہذا میں شیخ لویحق کے پاس جاکر تبادلہ خیال کرتا رہا،شیخ جب اس مقام پر آتے جہاں میں نے تعلیقات لگائی ہوتیں،  تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتے اور حیرانی سے کہتے  کہ ،لوگ کیا کہیں گے کہ یہ ایک پاکستانی ہمارے شیخ پر اصلاحی حواشی لکھ رہا ہے؟! خیر میں نے کوئی بلاوجہ نہیں ، بلکہ  ساتھ   ہر جگہ وجہ اور سبب بھی ذکر کیا ہوا تھا۔

پھر بھی شیخ تسلی کے لیے اپنے بھائی کو کال کرتے جو پی ایچ ڈی ڈاکٹرتھے، اور قواعد عربیہ پر کافی عبور رکھتے تھے ،ان سے پوچھتے کہ کیا اس نے یہ تعلیقات  صحیح لگائی ہیں؟ تو وہ میری تائید کردیتے۔

یہ نہیں تھا کہ میں ان سے زیادہ جانتا تھا بلکہ وہ اکثر مقامات میں قصیم لہجے کو اختیار کرلیتے تھے اور میں فصیح عربی کے اعتبار سے اصلاحات کرتا تھا۔ خیر پھر بھی شیخ کہنے لگے کہ  اس اسلوب کو لوگ قبول نہیں کریں گے،  کہ ایک اجنبی، پاکستانی ہمارے  عربی علامہ اور امام کی اصلاحات کر رہا ہے۔ چنانچہ ہم نے اس میں اسلوب ِ بیان کو تبدیل کردیا ،اور ہر مقام پر یوں لکھ دیا:”في الأصل کذا، ولعل الصواب کذا“۔

ہم نے ارھاب کے موضوع پر ایک کتاب ترتیب دی، جس کا نام یوں رکھا:

الإرهاب مفهومه، أشکاله وصوره،أسبابه،آثاره،حکمه، علاجه وموقف ولاة الأمر فی المملکة العربية السعودیة، وعلماء المسلمین منه.دراسة علمیة شرعیة.

اس کتاب کی تقدیم تین نمایاں شخصیات نے کی ،حرم کے امام اور خطیب صالح بن عبداللہ حمید ، فضیلۃ الشیخ عبداللہ محمد المعتاز ،فضیلۃ الشیخ الدکتور ابراہیم محمد ابوعباة، جو کہ  سعودی  عرب کی قومی سیکورٹی فوج میں ’دعوت و ارشاد‘ کے رئیس تھے۔

یہ کتاب اپنی مباحث کے اعتبار سے بالکل منفرد تھی،اس  میں ہم نے سعودی عرب کے تحفیظ القرآن الکریم کے  اداروں سے لیکر، اندرون وبیرون سعودی عرب جتنے بڑے بڑے دینی ادارے،  دعوتی سنٹرز ، اور  مدارس وجامعات تھے، ان سب کی نمایاں شخصیات، اور مشایخ وعلماء کا ذکر کیا،جن میں پاکستان سے محدث العصر ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ، پروفیسر ساجد میر صاحب، انڈیا سے شیخ اصغر امام مہدی امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث ہندوستان وغیرہ شامل تھے۔

جب یہ کتاب شائع ہوئی تو ہمیں بڑی بڑی نمایاں شخصیات کے تشکر وتبریک پر مبنی پیغامات موصول ہوئے اور بہت سارے افراد اور اداروں نے اسے خرید کر وسیع پیمانے پر تقسیم بھی کروایا۔

اسی طرح آج سے چار سال قبل رابطة العالم الاسلامی نے دہشت گردی سے متعلق پوری دنیا سے انٹیلی جنس اداروں کی ایک کانفرنس منعقد کی تھی، جس میں انہوں نے ہماری اس کتاب کو اپنے مونو گرام کیساتھ چھاپ کر تقسیم کیا۔

ہماری دوسری کتاب “طاعة ولي أمر المسلمین من أعظم واجبات الدین  “ہے۔اس کتاب کی تقدیم بھی امام و خطیب ِحرم صالح بن عبداللہ بن حمید نے کی تھی۔ کتاب چھپوانے کے لیے اجازت نامہ لینا پڑتا ہے، اس کتاب کے متعلق دلچسپ بات یہ ہے کہ  اس کا ’اذنِ طباعت‘ ہمیں اٹھارہ ماہ بعد وصول ہوا ۔سب سے پہلے وزارتِ صحافت وثقافت  نے، پھر وزارتِ داخلہ ، پھر حساس اداروں نے اچھے طریقے سے اس کتاب کو پڑھا،کیونکہ یہ ایک حساس موضوع تھا اور پھر مصنفین میں  سعودی شیخ کیساتھ ایک پاکستانی نام بھی شامل تھا (میری تمام کتابوں کی تالیف میں شیخ عبداللہ بن عبدالعزیز البکری شامل رہے ہیں)۔کچھ الفاظ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ بہت سخت ہیں ،ان کو حذف کردیا جاے۔

تیسری کتاب: “الخروج على ولي أمر المسلمين من أعظم محرمات الدین”  ہے۔اس کتاب  پر تقریظ فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن محمد المطلق  حفظہ اللہ نے لکھی۔ اجازت نامہ ہمیں چار ماہ بعد وصول ہوا ۔

ان کتابوں کی سب سےنمایاں خوبی یہ ہے کہ کسی بھی موضوع سے متعلق جتنے علمی فوائد، تحقیقی نکات، شروع سے لیکر اب تک مختلف مقامات پر متفرق تھے، ہم نے ان سب کو  تنظیم وترتیب کے ساتھ ایک جگہ پر جمع کردیا ہے، ہر کتاب میں یہ لکھا ہوا ہے:’’في ضوء الکتاب والسنة ومنهج السلف الصالح ‘‘ یعنی یہ سب چیزیں کتاب وسنت اور سلف صالحین کے منہج کے مطابق ہیں۔

مزید جو کام جو ہم نے کیا،  ان میں سے ایک صحیح البخاری کی شرح ہے، جو شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الراجحی نے لکھی ہے، جو شیخ ابن باز کے شاگرد ہیں،ان کی یہ کتاب 14 جلدوں میں چھپی ہے، اس کتاب کی دو جلدوں  (مسائل حج وعمرہ) کی مراجعت ونظرثانی میں نے کی تھی، اور کئی ایک مقامات پر عبارات، اسلوبِ بیان اور مسائل محلِ نظر تھے،  جن کے ذریعے شیخ سے رابطہ تھا، جب ان کو مطلع کیا گیا، تو  انہوں نے کہا کہ آپ براہِ راست شیخ سے تبادلہ خیال کرلیں، لہذا شیخ سے مجلس ہوئی، اور میں نے جہاں جہاں نشان لگائے تھے،  شیخ کو عرض کی کہ یہ اسلوب بیان  اور مسائل جمہور علماء اور بالخصوص شیخ ابن باز کے منہج کے خلاف ہے،شیخ نے اعتراف کیا اور حیرانگی سے کہنے لگے کہ میں نے تو ایسے نہیں لکھا تھا،یہ کیسے ہوگیا؟!  بہرکیف  شیخ محترم نے وہ اصلاحات قبول کرلیں۔ اسی طرح  شیخ کی ’احکامِ صیام‘ کی نظرثانی بھی میں نے کی تھی۔

اسی طرح پروفیسر ساجد میر صاحب  کی کتاب عیسائیت، مطالعہ و تجزیہ،اردو سے عربی میں مختلف علماء کرام سے ترجمہ کروایا گیا تھا، جس میں بہت سی غلطیاں موجود تھی، میں نے بڑی محنت کرکے اسے فصیح عربی میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ایک فصیح عربی اسلوب ہوتا ہے ایک لفظی ترجمہ ہوتا ہے، دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے،اگر لفظی ترجمہ ہو تو عرب اسے قبول نہیں کرتے۔

یہ میرا کچھ علمی کام ہے جو اللہ کی توفیق کیساتھ مکمل ہو کر منظرِ عام پر آگیا ہے، اور کچھ پراجیکٹس  ابھی زیرِ کتابت و طباعت ہیں۔ وللہ الحمد۔

سوال : آپ کا اکثر کام عربی میں ہے، عربی زبان سے خاص محبت کی کیا وجہ ہے؟

جواب: جیسا کہ پہلے عرض کیا، دار السلام کے لیے میں نے کچھ اردو کام بھی کیا تھا۔ لیکن زیادہ عرصہ چونکہ سعودی عرب میں رہا، اور عربوں میں کام  کیا، اس لیے میرا تقریبا سارا تصنیف وتالیف کا کام عربی میں ہے۔

جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھا تو ہم نے اپنے کام کا آغاز ’’دہشت گردی‘‘ کے موضوع سے کیا تھا، اس میں  کچھ موضوعات پر  تو باقاعدہ کام مکمل ہو کر منظر عام پر آگیا، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، جبکہ کچھ موضوعات ایسے تھے، جن پر میں نے مصادرو مراجع اور کتابیں وغیرہ جمع  کرکے،ان پر خطۃ البحث ( خاکہ) تیار کرلیا تھا، لیکن بعض اہل علم اور مشایخ نے منع کردیا اور نصیحت کی کہ بعض اوقات ایک ہی موضوع پر زیادہ لکھنے سے سارا کام مشکوک ہوجاتا ہے۔جن موضوعات پر میں نے موادجمع کرلیا تھا لیکن پھر اس پر کام نہ کرسکا وہ درج ذیل ہیں

(1) فتنة التكفير، جو کہ بہت خطرناک اور حساس موضوع ہے۔

(2)  فتنة الغلو في الدين

(3) الاسلام دین الوسطیة والاعتدال

(4)  المفهوم الصحيح للجهاد، شروط وضوابط.

(5)معاملة غیر المسلمین فی بلاد الإسلام، اس پر تو میں نے اتنا مواد جمع کرلیا تھا کہ یہ مکمل پی ایچ ڈی کا مقالہ بن سکتا تھا۔

ہماری جتنی بھی کتابیں چھپ چکی ہیں، یا کسی وجہ سے رہ گئیں، ان سب کے لیے  ہم نے  ایک نام رکھا تھا: “سلسلة تصحيح المفاهيم الخاطئة”. ہمارے سارے کام  اسی عنوان کے تحت ہوئے ہیں۔

سوال :پاکستان میں کون کون سے ادارے آپ کے زیر نگرانی چل رہے ہیں؟

جواب:پاکستان میں لاہور میں ہمارے دو مرکز ہیں:ایک کوٹ لکھپت میں مرکز الإمام البخاری الإسلامی ہے، اس مرکز کی نگرانی میرا داماد محمد سلیمان بن محمد اکرم کے سپرد ہے، ساتھ ہمارا ایک سکول بھی ہے،سکول کی پرنسپل بڑی دو بیٹیاں ہیں، اول سے لیکر میٹرک تک کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ہمارا دوسرا مرکز جوہر ٹاؤن، ہاکی اسٹیڈیم کے قریب ہے،جس کا نام مرکز سلمان الفارسی الاسلامی ہے ،اس مرکز کو میراچھوٹا بھائی چلا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بہاولنگر جو کہ ہمارا آبائی شہر ہے ،وہاں اور  دوسرے شہروں میں کچھ مساجد کا انتظام و انصرام  ہمارے ذمے ہے۔

سوال :پاکستان اور بیرون ملک میں آپ کے حوالے سے کیا تاثرات ہیں؟

جواب:سعودی عرب میں ہماری کتاب’ الارھاب‘ کافی وسیع پیمانے پر تقسیم کی گئی تھی،خصوصا حساس اداروں میں اس کی وجہ سے ہماری کافی شہرت  ہوئی،سب لوگ ہمیں جانتے ہیں۔ الحمدللہ۔ کتابوں کی وجہ سے ہماری حکومت اور اداروں میں ایک پہچان ہے، سعودی عرب میں جو لوگ ہم سے وابستہ ہیں وہ ہمیں جانتے بھی ہیں اور اکثر اوقات رابطے میں بھی رہتے ہیں۔ البتہ پاکستان میں چونکہ ہم نے زیادہ وقت نہیں گزارا، اس لیے عام لوگ تو کم ہی جانتے ہیں، لیکن بڑے بڑے مشایخ ،علمائے کرام، اساتذہ، اور ہمارے شاگرد اکثر اوقات رابطے میں رہتے ہیں۔

 یہاں ایک دلچسپ بات سن لیں  کہ پاکستان میں ایک بہت بڑے عالم ہیں، جن کا نام لینا مناسب نہیں،ان کے بیٹے نے ہم پر مرتد اور گمراہ ہونے کا فتوی دیا،ہماری کتاب الارھاب جب منظرعام پر آئی تو فتنہ تکفیر پر اس شخص نے تقریبا تین چار گھنٹے ہم سے بحث کی ، دلائل کا تبادلہ خیال ہوا، لیکن وہ بعد میں اپنے حلقہ احباب میں کہنے لگا  کہ شیخ عبدالحلیم گمراہ اور مرتد ہے۔ بہرکیف ہر طبقے میں کچھ لوگ آپ کے دشمن اور حاسد بھی ہوتے ہیں۔

العلماء ویب سائٹ پر شیخ محترم کی تحاریر و مقالات پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔