علما کی خدمت، اور عزت وتکریم کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ ان کے تذکرہ خیر کو عام کیا جائے، اس لیے ہم نے ’تعارفِ علما‘ کا سلسلہ شروع کیا، اسی مبارک سلسلے کی ایک اہم کڑی شیخِ محترم کا یہ انٹرویو ہے، جو آپ کے شاگردِ رشید مولانا زین سرور کے توسط سے سر انجام پایا۔ مولانا نعیم الحق ملتانی حفظہ اللہ ایک کہنہ مشق مدرس، شیخ الحدیث، مصنف اور درجنوں علما کے استاد ہیں، جس کی تفصیل انٹرویو میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ (ادارہ)
سوال: شیخ محترم ! آپ کا اسم گرامی کیا ہے؟
جواب: میرا نام نعیم الحق ملتانی ہے ۔ ملتانی ،ملتان کی نسبت سے ہے۔
سوال: آپ کی تاریخ پیدائش کیا ہے اور آپ کس علاقے میں پیدا ہوئے؟
جواب:میں 10 اپریل 1968 کو ملتان کے ایک نواحی علاقے موضع کھوٹھے والا، بدھلا روڈ کے ایک گاؤں چاہ جیون سنگھ والامیں پیدا ہوا۔ چاہ یہ اس علاقے میں ایک کنواں تھا ۔جس کی وجہ سے اس کا نام چاہ جیون سنگھ والا ہے۔
سوال : اپنے تعلیمی دورانیے کو مرحلہ وار بیان کیجیے گا؟
جواب: سکول کی تعلیم پرائمری تک حاصل کی ۔ حفظ کا آغاز گھر سے ہوا ۔ والد اور والدہ سے ڈھائی پارہ گھرہی میں حفظ کیا۔باقاعدہ مکمل حفظ ایک علاقائی بریلوی استاد عبدالقادر صاحب سے کیا۔ پھر دارالحدیث رحمانیہ ،چونگی نمبر14 ،مولویاں والا شہر ملتان میں بہ تجوید از سر نو حفظ مکمل کیا ۔ درس نظامی سال اول دارالحدیث رحمانیہ ،چوک اہل حدیث ،خانیوال شہر میں مکمل کیا۔ دوسرا سال دارالحدیث محمدیہ نزد عام خاص باغ ، ملتان سے مکمل کیا۔ تیسرے سال سے درس نظامی کے آخری سال ، یعنی بقیہ 6 سال (کل آٹھ سالہ درس نظامی تھا)دارالحدیث محمدیہ جلال پورپیر والا ،ضلع ملتان محدث العصر مولانا سلطان محمود صاحب ؒ اور ان کے رفقاء سے خوب کسبِ فیض کیا۔ جلال پورسے فراغت کے بعد دو سال جامع علوم اثریہ، جہلم میں اصول فقہ میں تخصص کیا اور ثناء اللہ زاہدی صاحب حفظہ اللہ سے اصول فقہ میں تخصص کیا ۔ اس دوران اسی ادارے میں تدریسی ذمہ داریوں سے بھی عہدہ برآہوتا رہا۔
سوال : شیخ ! آپ اپنے اساتذہ کے بارے کچھ ذکر کریں؟
جواب: چند اساتذہ کے نام یہ ہیں:
شعبہ حفظ میں : استاد عبدالقادر ، قاری سعید احمد (17کسی، بدھلا روڈ، ملتان میں تجوید کا آغاز ان سے کیا)
قاری خورشید احمد (سمیجھ آباد ملتان)تجوید کی انتہا ان قاری صاحب کے پاس کی۔
درس نظامی کے اساتذہ کے نام یہ ہیں:
1-استاد محترم مولانا عبدالرحمٰن صاحب (استاد: خانیوال)
2-قاری خلیق الرحمٰن لکھوی (ساکن: رینالہ خورد ،استاد :خانیوال)
3-مولانا محمد اشرف(ساکن لیہ استاد خانیوال)
اساتذہ جلال پور:
1-مولانا عبدالرشید ریاستی رحمہ اللہ
2-مولانا محمد انس صاحب رحمہ اللہ
3-مولانا اللہ یار رحمہ اللہ
4-مولانا محمد رفیق اثری جلالپوری رحمہ اللہ
5-مولانا سلطان محمود محدث جلالپوری رحمہ اللہ
جن سے اجازۃ الروایہ حاصل ہے :
1۔مولانا فیض الرحمٰن ثوری(بہنوئی ،سلطان محمود جلال پوریؒ)2-حافظ عبدالمنان نور پوریؒ
سوال :اپنے چند شاگردوں کے نام بتائیں!
جواب: بہت سے طلباء نے کسب فیض کیا جن میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں:
1-غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری صاحب حفظہ اللہ 2-حافظ محفوظ الرحمٰن جامعہ تربیۃ فیصل آباد3-مولانا اشرف صاحب حفظہ اللہ جامعہ ابی ہریرہ،لاہور 4-مولانا محمدامجد عزیز (جامعہ عزیزیہ،ساہیوال۔ مدرس و مترجم عون المعبود) 5-مولانا محمد زین سرورعزیز (مدرس جامعہ بلال الاسلامیہ)
ان کے علاوہ بھی کئی ایک تلامذہ ہیں جو مختلف دینی شعبوں میں اپنی صلاحیتوں سے امت کو مستفید فرمارہے ہیں۔
سوال: آپ نے اب تک کن کن اداروں میں تدریسی فرائض سر انجام دیے ہیں؟
جواب:1991 ءسے 2023 ءتک تا حال تدریسی ذمہ داریاں سر انجام دینے کا موقعہ ملا ہے، جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
- دو سال جامع علوم اثریہ ،جہلم
- ایک سال جامعہ عثمان بن عفان، بستی لاڑ (ایک قوم )، ملتان۔
- پانچ سال جامعہ محمدیہ نزدشکار پوری گیٹ، بہاول پور۔
- ایک سال دارالحدیث محمدیہ ،عام خاص باغ ،ملتان
5-چھ سال دار الحدیث محمدیہ ،جلال پور روڈ ،لو دھراں
6- تین سال جامعہ شمس الھدیٰ ،ڈسکہ
7- تین سال جامعہ اشاعت اسلام، 149 ای-بی، عارف والا
8-تقریباً پانچ سال اسلامک سنٹر ،ملتان
9-تقریباً 3سال جامعہ اسلامیہ ڈھلیانہ ، رینالہ خورد، اوکاڑہ 10-31 دسمبر 2017 ءکو جامعہ عزیزیہ، ساہیوال آمد ہوئی۔ یکم جنوری 2018 کو تدریس کا آغاز کیا اور تا حال پڑھا رہا ہوں ۔ اب تقریباًچھٹا سال چل رہا ہے۔
مزید پڑھیں: حافظ عبد السلام بن محمد بھٹوی رحمہ اللہ کے حالات زندگی
سوال :تصنیف و تالیف کے میدان میں آپ کی کیا خدمات ہیں؟
جواب: تالیف:منظومہ مقدمہ النعیمیہ ۔اس کتاب میں تجوید کے موضوع پر 310 اشعار ہیں یہ کتاب المقدمۃ الجزریۃ کے اسلوب پرلکھی گئی ہے۔(غیر مطبوع)
2-تصنیف :یہ کتابچہ، حافظ عبداللہ بہاول پوری صاحب کے عربی رسالہ’’این یضع المصلی یدیہ بعد الرکوع‘‘ کا اردو ترجمہ ہے یہ کتابچہ بہاول پورکی مدت تدرس کے دوران مکمل کیا ۔ مرکز الدعوہ والارشاد (المعروف جماعۃ الدعوۃ)نے میرے ساتھ فکری اختلاف کی وجہ سے میرے نام کی بہ جائے حافظ عبداللہ بہاول پوری ؒکے بیٹے حافظ عبدالمنان کے نام سے شائع کردیا۔ صورت حال یہ ہے کہ حافظ عبدالمنان کے اندر ترجمہ کرنے کی صلاحیت ہرگز موجود نہیں ہے ۔
’’البلاغۃ الواضحۃ ‘‘کا اردو ترجمہ شروع کیا ۔ ابھی مقدمے کا ترجمہ مکمل کیا تھا کہ معلوم ہوا کہ اس کا ترجمہ ہوچکا ہے، لہٰذا اس کام کو ترک کردیا۔
4-آئینہ عید میلاد اخذ و نقد :فیصل آباد کےایک شاگرد رضوان اللہ انصاری نے اس کتاب کا سارا مواد خود ترتیب کیا اور مجھے پڑھ کر حرف بہ حرف من و عن سنایا ،پھر پر زور اصرار پر میرے نام سے شائع کردی۔
5-بھینس کی قربانی: حافظ عبداللہ بہاول پوری رحمہ اللہ (باقاعدہ اہتمام کے ساتھ رحمہ اللہ کہا اور دو سے تین بار کہا)چونکہ حافظ عبداللہ محدث روپڑی کے شاگرد ہیں اور حافظ عبداللہ محدث روپڑی (میرے ناقص علم کے مطابق) پہلی تاریخِ اسلام کی شخصیت ہیں جنہوں نے بھینس کی قربانی کے عدمِ جواز کا فتوی دیا ۔ ظاہری مزاج رکھنے والے تمام اہل حدیث حضرات میں یہ مسئلہ عدم جواز سے متعارف ہو گیا اور بہاول پوری ماحول میں اس معاملے میں کافی شدت پائی جاتی تھی۔ یہی شدت اس کتاب کی تالیف کا باعث بنی ، جیسا کہ کتاب کے مقدمے میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے۔
7-ضوء الساری الی معرفۃ اسرار البخاری، 2005 سے 2013ءتک کےعرصے میں امام بخاری کا منہج بہ صورت نقشہ مرتب کرنے کا موقع ملا ، جس کاتفصیلی خاکہ اس کتاب کے شروع میں موجود ہے ۔
8-جامعہ شمس الھدی کے زیرِ اہتمام چھپنے والے ماہوار رسالے ’’تنویرالھدی‘‘ کے چند شماروں میں مضامین بھی لکھے۔
سوال :دعوت و تبلیغ کے میدان میں خدمات کے حوالے سے کچھ فرمائیں؟
جواب: جامعہ اثریہ میں تدریس کے دوران جہلم میں خطبہ جمعہ دیتا رہا اور تدریس کے دوران مختلف مقامات پر خطبات جمعہ کے فرائض سر انجام دیے ہیں۔
سوال :آپ نے شادی کب کی؟ اور اولاد کتنی ہے؟
جواب: پہلی شادی اپریل 1994ء میں ہوئی مگر کوئی اولاد نہ ہوئی اور بعض ناگزیر حالات کی وجہ سے فروری 1999ء میں علیحدگی ہوگئی۔ دوسری شادی نومبر 2001ء میں ہوئی۔ دوسری بیوی کے بطن سے تین بیٹے :حمزہ نعیم ، اسد نعیم اور انس نعیم ہیں۔
دو بیٹے حافظ قرآن ہیں اور میڑک کی تیاری کررہے ہیں۔ میڑک کے بعد باقاعدہ دینی تعلیم پڑھانے کا ارادہ ہے ،ان شاء اللہ ۔ بڑا بیٹا میڑک کرنے کے بعد تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکا۔وہ آج کل ایک فیکڑی میں ملازم ہے۔
سوال :آپ کی سوشل میڈیا کے بارے کیارائے ہے؟ کیا آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں؟
جواب : جدید میڈیا کے 3 ارکان ہیں :جھوٹ ، عورت اور میوزک ۔
تین میں سے ایک رکن نکال دیں تو جدید میڈیا منہدم ہوجائے گا۔ اس کی باگ ڈور ہیومن بینگ(Human Being) کے ہاتھ میں ہے جوانسانی خدائی کے علم بردار ہیں , انجام گلستان کیا ہوگا۔
میں سوشل میڈیا بالکل استعمال نہیں کرتا ۔
سوال :کیا آپ کے حالات زندگی مکتوب صورت میں کہیں موجود ہیں؟
جواب :کسی جگہ کچھ حالات قلم بند کیے تھے مگر یہ مسودہ یاد نہیں کہاں ہے ۔
سوال :طلبہ اور نوجوان علماء کو کیا نصیحت فرمائیں گے ؟
جواب :اگر نجات اور سلامتی چاہیے تو عملا نبوی اور صحابہ والی زندگی پر آجائیں اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ نبی کریم ﷺ کے دور والے مدینے میں رہنے کے لیے تیار ہیں۔
سوال :آپ کی تصویر اور ویڈیو کے حوالے سے کیا رائے ہے؟
جواب :میرے ویڈیو بیانات اور خطابات ، میرے کہے بغیر بنائے گئے جن میں میری رضا اور رغبت شامل نہیں تھی ۔ تصویر اور ویڈیو کے بارے میں وہی کہوں گا جو میک لوہان نے اپنی معروف کتاب (The Media is the Message) میں کہی ہے : ’’یہ مسلمانوں کے خدا کا مقابلہ ہے‘‘ یعنی اس کی بات کا اسلامی مزاج میں مفہوم یہ ہے کہ ویڈیو بنانا اور تصویر سازی اللہ تعالیٰ کے اسم مصور کا مقابلہ ہے ۔
سوال : آپ کے علمی لطائف اور علمی چٹکلوں سے آپ کے تلامذہ اور آپ کے دیگر حلقہ احباب کے لوگ محظوظ ہوتے ہیں، اس کی کوئی خاص وجہ ۔
جواب : کوئی خاص وجہ نہیں، محض ادبی ذوق کی بنا پر ایسا کرتا ہوں۔
سوال :اس قدر کم تنخواہ تیس ہزارمیں گزارہ کیسے ممکن ہے ؟
جواب :اللہ تعالیٰ کی خاص برکت شامل حال رہتی ہے، ورنہ بہ ظاہر یہ ناکافی ہے ۔
(تمت بالخیر)