[کسی بھی عالم دین کا سب سے مستند تعارف وہی ہوسکتا ہے، جو انہوں نے خود تحریر فرمایا ہو، لہذا یہ حافظ صاحب مرحوم کے اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ حالات زندگی پیش کیے جارہے ہیں، جو کہ آپ کی شرح بخاری ’فتح السلام’ کی جلد اول میں موجود ہیں، العلماء کی طرف سے اس میں معمولی ترتیب و تنسیق کے علاوہ کسی قسم کا کوئی حک و اضافہ نہیں ہے۔]
نام و نسب:
عبدالسلام بن حافظ محمد ابو القاسم بن حسین بن اسماعیل بھٹوی
پیدائش:
میری پیدائش 29 رمضان المبارک 1365ھ، مطابق 27 اگست 1946ء کو اپنے ننھیال موضع گوہڑ چک نمبر 8 پتوکی میں ہوئی۔ میرا آبائی گاؤں ’’بھٹہ محبت والا ’’ ہے، جو تحصیل دیپال پور ضلع اوکاڑا پنجاب میں واقع ہے، اس کی نسبت سے مجھے ’’بھٹوی’’ کہا جاتا ہے۔
تعلیم:
حفظ القرآن، فاضل جامعہ سلفیہ فیصل آباد، فاضل جامعہ محمدیہ اوکاڑہ، فاضل عربی، فاضل فارسی، میٹرک، فاضل طب جدید نظریہ مفرد اعضاء۔
اساتذہ:
(1) استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث امام حافظ محمد گوندلوی (جامعہ سلفیہ فیل آباد)، یہ میرے والد حافظ محمد ابوالقاسم بھٹوی کے بھی استاد ہیں، میں نے ان سے صحیح البخاری، موطا امام مالک اور سنن ابی داؤد پڑھیں۔
(2) شیخ الحدیث مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی (دار الحدیث اوکاڑہ)، یہ بھی میرے والد حافظ ابو القاسم کے استاذ ہیں، میں ابھی چھوٹا تھا کہ طلبہ کو صحیح بخاری پڑھانے کے بعد مجھے بلا لیتے اور نہایت شفقت کے ساتھ بلوغ المرام کی ترکیب نحوی کرواتے تھے۔
(3) والد ماجد شیخ الحدیث حافظ محمد ابو القاسم بھٹوی (متعدد مدارس)، ابتدائ تعلیم، حرف شناسی، قرآن مجید ناظرہ و ترجمہ، ابواب الصرف، صرف میر، نحو میر، شرح مائۃ عامل، بلو غ المرام، قدوری، مشکاۃ المصابیح، جامع ترمذی، سبعہ معلقہ، الفیہ ابن مالک، حماسہ، متنبی، شرح شذور الذھب، دروس البلاغہ اور فصول اکبری۔
(4) شیخ الحدیث مولانا محمد عبدہ الفلاح، مؤلف ’تفسیر اشرف الحواشی’ (جامعہ محمدیہ اوکاڑہ)، میں نے ان سے دوبارہ صحیح البخاری پڑھی، توضیح تلویح اور مسامرۃ فی العقائد بھی پڑھیں۔
(5) شیخ الحدیث حافظ عبد اللہ بڈھیمالوی (جامعہ سلفیہ فیصل آباد)، حجۃ اللہ البالغہ اور بوستان سعدی۔
(6) شیخ المعقولات مولانا شریف اللہ سواتی (جامعہ سلفیہ فیصل ٓآباد)، تفسیر بیضاوی، شمس بازغہ، التصریح فی الھیئہ۔
(7) ٰشیخ الادب مولانا صادق خلیل (جامعہ سلفیہ فیصل آباد) ، تاریخ الادب العربی اور دلائل الا عجاز۔
(8) مولانا سرور شاہ (جامعہ سلفیہ فیصل آباد) مختصر المعانی اور قطبی فی المنطق۔
(9) مولانا عبد الرحیم صاحب (دارالحدیث اوکاڑہ)، شرح تہذیب فی المنطق۔
(10) مولانا جمعہ خان (جامعہ محمدیہ اوکاڑہ)، حمد اللہ اور شرح عقائد نسفی۔
(11) مولانا اسحاق خائف (دار الحدیث اوکاڑہ)، المرقاۃ المنطق۔
(12) مولانا عبد الحق میواتی (دار الحدیث اوکاڑہ)، ترجمہ قرآن مجید۔
(13) مولانا حافظ عبد الرزاق، صبح و شام مسجد میں ان سے قرآن کی چند سورتیں اور مسنون دعائیں حفظ کیں۔
(14) استاذ الحفاظ قاری فضل کریم صاحب (مدرس تجویجد القرآن) کوچہ کنڈی گراں، رنگ محل لاہور، حفظ قرآن اور مقدمہ جزریہ۔
(15) قاری مسافر جان صاحب (تجوید القرآن لاہور)، حفظ قرآن۔
(16) شیخ القراء قاری محمد اسلم صاحب (جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ) شاطبیہ فی القراءات۔
(17) سکول میں متعدد اساتذہ سے پڑھا، اللہ تعالی سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ ان میں سے سکول کے ہیڈ ماسٹر چودھری عبد الحکیم صاحب سے اردو اور فارسی کا ذوق حاصل ہوا۔ انھیں اتنے اشعار یاد تھے اور استحضار تھا کہ ہر لفظ کے لیے کوئی نہ کوئی شعر پڑھ دیا کرتے تھے۔ ان کے پیریڈ میں بعض اساتذہ بھی آکر سبق سنا کرتے تھے، جن کا پیریڈ خالی ہو تا تھا۔ اللہ تعالیٰ میرے تمام اساتذہ کو بہترین جزا عطا فرمائے اور انہیں معاف فرماکر جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔
تدریس:
شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کی زندگی میں جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں سنہ 1966ء میں پڑھانا شروع کیا، تین سال تک ان کی نگرانی میں پڑھاتا رہا، ان کی وفات کے بعد شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ ؒ کی زیر نگرانی جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں 1992 ء تک تقریبا ستائیس سال قمری پڑھاتا رہا۔ اس دوران مولانا محمد عبداللہ صاحب نے مجھے جامعہ تدریس القرآن و الحدیث جامع مسجد روڈ راولپنڈی میں صحیح بخاری پڑھانے اور خطبہ جمعہ اور درس دینے کے لیے بھیج دیا اور کہا کہ اگر تمہارا دل وہاں نہ لگے تو کہیں اور نہیں جانا، واپس آجانا۔ میں ایک سال وہاں رہا اور پھر واپس جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں آگیا۔ شوال سنہ 1412 ھ مطابق اپریل سنہ 1992ء کو جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ سے استعفا دے کر مرکز طیبہ مریدکے میں آگیا اور یہاں جامعہ دعوہ الاسلامیہ کا آغاز کیا۔ آج نو (9) جمادی الاولیٰ سنہ 1942ھ مطابق 25 دسمبر 2020ء کو یہ سطریں لکھتے ہوئے ابھی تک یہیں پڑھا رہا ہوں اور جامعۃ الدعوۃ الاسلامیہ کے تحت ملک بھر میں پھیلے ہوئے مدارس کی نگرانی بھی میرے ذمے ہے۔ اگرچہ حقیقت وہی ہے جو اللہ تعالی نے بیان فرمائی ہے کہ حق ادا نہیں ہوا۔ (کلا لما یقض ما أمرہ) اپنی ساری کوتاہیوں پر اللہ تعالیٰ سے درگزر کا خواستگار ہوں۔
خطابت:
جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں تدریس شروع کرنے کے چند ماہ بعد شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ نے مجھے جامعہ مسجد بلال سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں جمعہ اور درس کے لیے بھیج دیا۔ مولانا نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جو عالم طرز کے ساتھ گا کر تقریر کرتا ہے جب اس سے زیادہ اچھی آواز والا خطیب آجائے تو لوگ اسے چھوڑ کر نئے خطیب کے پیچھے چلے جاتے ہیں، ٰجیسا کہ بریلوی حضرات کے خطیب مولوی بشیر احمد صاحب قبرستان روڈ پر مسجد میں جمعہ پڑھاتے تھے اور اچھی وسیع مسجد نمازیوں سے بھر جاتی تھی، لیکن جب ایک دوسری مسجد میں مولوی عبد العزیز چشتی آئے اور ان کی آواز ان سے اچھی تھی تو مولوی بشير احمد صاحب کی مسجد تقریبا خالی ہوگئ۔
مولانا نے فرمایا کہ میں کسی طرز کے بغیر سادہ تقریر کرتا ہوں، گوجرانوالہ میں بڑے بڑے خوش الحان خطیب آئے مگر میرے حاضرین میں کبھی کمی نہیں ہوئي۔ میں نے انکی نصیحت پلے باندھ لی۔ مولانا مرحوم کی تو بات ہی کیا تھی، وہ بہت عالی دماغ زبر دست ذہین اور حافظے والے تھے، انکی آواز بھی تقریر کے لیے نہایت موزوں تھی، ان جیسا مطالعہ اور کتابوں کا شائق، حدیث اور اصحاب الحدیث کا دفاع کرنے والا بہترین مقرر، مصنف، استاد اور منتظم میں نے کم ہی دیکھا ہے۔ اپنے پاس ان جیسی تو کوئي چیز بھی نہیں مگر ان کی نصیحت پر عمل کی برکت سے مجھے بھی اپنے خطبہ میں کسی خطیب کے شہر میں آنے پر حاضرین کی کمی کی کبھی شکایت نہیں ہوئي۔ (والحمد للہ)
تقریبا سات سال میں نے مسجد بلال سیٹلائٹ ٹاؤن میں خطابت کی، پھر شیخ الحدیث مولانا عبد اللہ صاحب نے مجھے مسجد بلال محلہ اسلام آباد میں جمعہ پڑھانے کا حکم دے دیا، کچھ عرصہ میں وہاں جمعہ پڑھاتا رہا پھر ان کے حکم پر جامع مسجد تدریس القرآن و الحدیث راولپنڈی میں تدریس اور جمعہ پڑھانے کے لیے چلا گیا، ایک سال کے بعد واپس آگیا تو انہوں نے مجھے جامع مسجد طیبہ وحدت کالونی گوجرانوالہ میں جمعہ پڑھانے کے لیے مقرر کر دیا۔ جب شہر میں میں پیپلز کالونی بنی اور اس کے وسط میں جامع مسجد الفتح بنائي گئ تو مولانا عبد اللہ صاحب نے مجھے وہاں خطیب مقرر کردیا۔ چنانچہ 1988ء سے لے کر آج 25 دسمبر 2020 ء تک وہیں خطیب ہوں۔ (والحمد للہ)
اولاد:
میں نے چار شادیاں کیں، ان میں سے دو اس وقت موجود ہیں۔ اللہ تعالی نے مجھے چار بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائی ہے، عبد الرحمن، عبد اللہ، عمر، محمد چاروں حافظ قرآن اور عالم دین ہیں اور چاروں درس نظامی کی تدریس کررہے ہیں۔ (والحمد للہ) بیٹی مریم سات آٹھ سال کی ہے، اپنی عمر کے مطابق کچھ نہ کچھ پڑھ رہی ہے۔
طب:
والد صاحب مرحوم طب کا شوق رکھتے تھے، مجھے بھی اسکا بہت شوق ساری عمر رہا۔ آزاد مطالعہ اور دینی علوم کے علاوہ میں نے طب یونانی، ہومیو پیتھی اور طب جدید کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور ان سے بہت فائدہ اٹھایا۔ ایلو پیتھی کی اردو میں جو کتابیں مل سکیں وہ بھی پڑھتا رہا اور جہاں سے کوئی فائدہ ملا حاصل کرنے سے دریغ نہیں کیا، بقول شیخ سعدی ؒ
تمتع زہر گوشئہ یافتم زہر خرمنے گوشئہ یافتم
’’میں نے دنیا کے ہر کونے سے فائدہ حاصل کیا اور ہر کھلیان میں سے کوئ نہ کوئ خوشہ سمیٹتا رہا۔
تد ریس کے ساتھ ساتھ ہمیشہ عصر کے بعد مریض دیکھتا رہا اور اب بھی یہ شغل جاری ہے۔ (والحمد للہ علی ذالک)
تالیفات:
(1) اردو ترجمہ قرآن مجید
(2) پورے قرآن مجید کے ہر لفظ کے نیچے ایک خانہ میں اس کا اردو ترجمہ
(3) تفسیر القرآن الکریم اردو چار جلدیں
(4) اردو شرح کتاب الجامع من بلوغ المرام
(5) ترجمہ اسلامی عقیدہ از جمیل زینو۔
(6) احکام زکوۃ و عشر و صدقہ الفطر
(7) ہم جہاد کیوں کررہے ہیں؟
(8) مسلمانوں کو کافر قرار دینے کا فتنہ
(9) مسلمانوں میں ہندوانہ رسوم و رواج
(10) ایک دین چار مذاہب
(11) مسنون دعاؤں کی کتاب ’’حصن المسلم’’ کا اردو ترجمہ
(12) اردو شرح کتاب الطہارۃ من بلوغ المرام
(13) اب صحیح بخاری کا اردو ترجمہ اور اس کی متوسط شرح لکھ رہا ہوں، جو اس وقت تک تین ہزار احادیث تک پہنچ چکی ہے، ساڑھے چار ہزار احادیث باقی ہیں۔ اس شرح کی پہلی جلد کے چھاپنے کی تیاری ہوئی تو میں نے آگے شرح کا کام روک کر پہلی جلد کی ابتدا کے لیے امام بخاری اور صحیح بخاری کے حالات لکھے، اس کے بعد شرح کا مقدمہ لکھا، اب اپنے احوال زندگی لکھ کر عزیز بھائی محمد اشتیاق اصغر صاحب کے سپرد کر رہا ہوں، تاکہ وہ پہلی جلد مکمل کرکے اسے چھاپنے کا اہتمام کریں۔
[ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم وتب علینا انک انت التواب الرحیم]
عبد السلام بن محمد ابوالقاسم بھٹوی
جامعۃ الدعوۃ الاسلامیہ، مرکز طیبہ مریدکے
ضلع شیخوپورہ، پنجاب پاکستان
9 جمادیٰ الاولیٰ 1442ھ
مطابق 25 دسمبر 2020 ء
وفات:
حافظ صاحب رحمہ اللہ 29 مئی 2023ء کو دل کی تکلیف کے باعث وفات پاگئے، جبکہ شرح بخاری کی تکمیل میں ابھی تقریبا سات سو احادیث باقی تھیں۔ حافظ صاحب کی تفصیلی سوانح حیات کے لیے ان کے عزیز قاری محم طیب صاحب کی کتاب ’گاؤں بھٹہ محبت کے علماء’، اسی طرح مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی خدام قرآن اور گلستان حدیث وغیرہ میں بھی آپ کے حالاتِ زندگی موجود ہیں۔
حافظ صاحب کی وفات پر بعض تاثراتی تحاریر دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
یہ بھی پڑھیں: شیخ الحدیث مولانا محمد رمضان سلفی