نقل اور عقل کا اختلاف

پچھلی چودہ سو سالہ تاریخ کا سب سے بڑا اختلاف نقل اور عقل کا تعارض ہے۔ مسمانوں میں ہر فکری گمراہی کے پیچھے عقل کا نقل صحیح سے اختلاف کرنا ہے خواہ اس گمراہی کا نام خارجیت رکھا جائے یا رافضیت، قدریت یا جبریت ، اشاعرہ یا معتزلہ یا ماتریدیہ یا متصوفہ، ہر جگہ بنیادی سبب یہی نظر آئے گا کہ کتاب و سنت کی نصوص کی من مانی عقلی تشریحات و توضیحات کی جا رہی ہیں۔

وہ جس نے یہ کہا تھا کہ ” آپ نے تقسیم درست نہیں کی” سے لے کر وطن عزیز میں آرٹیفیشل موٹی-ویش-نل سپیکرز تک سب کو دیکھ لیں سب کا یہی حال ہے۔ مرزا جہلمی کی بازاری انداز کی گمراہی ہو یا جاوید احمد غامدی صاحب کی علمی انداز میں گمراہی ہو یا ساحل عدیم جیسے ملحد ہوں یا قاسم علی شاہ جیسا فراڈ ہو جس کے ساتھ حمل کے علاوہ سارے واقعات پیش آ چکے ہیں، یا جن کی کبھی کبھی اصلاح معاشرہ کی رگ پھڑکتی ہے اور ان کے پاس اصلاح احوال کے بنیادی اصول و ضوابط بھی نہیں ہوتے بس سٹیج پر کھڑے ہو کر عقلانیوں کے چند جملے یاد کر کے اردو عربی انگریزی میں لفاظیاں کرتے ہیں اور ایک نیا ٹرینڈ شروع کر دیا گیا ہے کہ مشہور ہونا ہے تو مدرسہ اور مسجد کی اصلاح کے نام پر تنقید کی جائے،،،، ان سب نے اپنے آپ کو عقل کل سمجھا ہوا ہے یا عقل کا شتر بے مہار استعمال کرتے ہیں ۔
حالانکہ دیکھا جائے تو عقل اللہ کا ایک بہت بڑا انعام ہے اگر اسے دین کے تابع رکھا جائے تو یہی عقل سلیم ہے جس کا مطالبہ اللہ تعالی نے جا بجا قرآن مجید میں کیا کیونکہ اس کی مدد سے ہم اللہ تعالی کو پہچاننے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
ہر وہ شخص جو کتاب و سنت کی نصوص کی تشریحات اپنی عقل محض سے کر رہا ہے اور نبوی تشریحات کو بیان نہیں کرتا یا اپنے انداز میں مسخ کر کے بیان کرتا ہے سمجھ جائیں کہ یہ شخص گمراہی کی راہ پر ہے۔
اپنی عقل کو عقل سلیم بنانا چاہتے ہیں تو
1) کتاب وسنت کی نصوص پر غیر متزلزل ایمان لائیں
2) کتاب وسنت کی نصوص کی نبوی تشریحات پربھی غیرمتزلزل ایمان لائیں
3) کتاب و سنت کی نصوص کی وہ تشریحات جو خیر القرون سے مل رہی ہیں جن کی سند رسول اللہ ﷺ سے جا ملتی ہے انہیں بھی مانیں
4) (عقلانیوں) اھل بدعات و شرک و خرافات کی تعبیرات خواہ کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں ان سے بچنے کی کوشش کریں۔

یہ بھی پڑھیں:جنازہ پر مولوی لیٹ کیوں ہوا؟