جنازہ پر مولوی لیٹ کیوں ہوا؟

عجیب منظر تھا ایسی موت ہوئی تھی کہ سارا گاؤں غم میں ڈوب گیا تھا،افسوس سے سب کو کندھے پر سر بھاری لگنے لگے تھے۔ مرحومہ کو اللہ نے ایسے سخی دل اور کھلے ہاتھ سے نوازا تھا کہ گاؤں کا کوئی گھر یا فرد اس کی فراخدلی سے محروم نہ رہا تھا،اس لیے چودھری کی جوان بیوی کے جنازے میں سارا ہی گاؤں امنڈ آیا تھا، ایک یہ گاؤں ہی کیا، ارد گرد کے گاؤں سے بھی چودھری سے تعلق کی بنا پر بہت لوگ آئے تھے۔ مسجد اندر باہر سے بھر چکی تھی مگر مولوی صاحب غائب تھے۔
یا حیرت! ایسی غیر ذمے داری؟ جنازہ پڑا ہے، لوگ کھڑے ہیں، چودھری کا مارے غم اور بلڈ پریشر کے کھڑا ہونا محال ہے، لوگ اپنا قیمتی کام اور کاروبار چھوڑ کے آئے ہیں، کتنے ہی ان میں مریض ہیں اور کتنے ہی بے پناہ مصروف ۔۔ سب مولوی کے منتظر مگر مولوی صاحب غائب ۔۔ حجرہ خالی ہے، مولوی صاحب کے گھر سے پتہ کر لیا گیا ہے۔ کہیں سے کوئی سراغ نہیں ملتا۔اب اگرچہ مجمعے میں معاشرے کے بڑے سے بڑے معزز، تاجر، اہل سیاست و صحافت، اہل حرفت کھڑے ہیں مگر ظاہر ہے جنازہ کی دعائیں اور طریقہ تو مولوی کو ہی آتا ہے۔ کسی کو کچھ دعائیں یاد بھی ہیں تو طریقہ نہیں آتا۔ طریقہ آتا بھی ہے تو مشق نہ ہونے کے باعث ہمت نہیں پڑ رہی۔ کیسی مصیبت کا عالم ہے،اب جنازہ پڑھے بغیر تو میت دفن نہیں کی جا سکتی۔ دفن کیے بغیر لوگ لوٹ نہیں سکتے۔ پورے گاؤں کی زندگی رکی پڑی ہے مگر حد ہے مولوی صاحب کو احساس ہی نہیں۔ لوگوں کا غصہ بڑھتا جاتا ہے۔
لیجئے کوئی آدھے گھنٹے کے قیامت خیز انتظار کے بعد آوازہ پڑا کہ مولوی صاحب آگئے ہیں۔مولوی صاحب مسجد کے دروازے سے تیزی سے اندر آئے، ان کے ہاتھ میں پلاس ہے، کندھے پر بجلی کی تاریں، کپڑے گرد آلود ہیں اور چہرے پر پسینہ۔۔ نظر پڑتے ہی چودھری نے غصہ دباتے ہوئے پوچھا، مولوی صاحب کچھ خیال بھی کر لیا کریں، کدھر غائب تھے آپ؟ جنازہ منتظر پڑا ہے اور مارے انتطار کے لوگوں کی بس ہو چکی ہے۔مولوی صاحب نے بغل سے الیکٹریشن والا بستہ اتارتے ہوئے رسان سے بتایا، مولوی صاحب اللہ دین کے گھر کی ساری وائرنگ جل گئی تھی۔ بڑا مسئلہ ہوا پڑا تھا، شکر کیجئے کہ جلدی مسئلہ سلجھ گیا تو میں بہرحال جنازے کیلئے پہنچ گیا، اور یہ بھی اچھا ہوا، چودھرائن کل نہیں مری ،کل تو میں مال لینے شہر گیا ہوا تھا،اچھا چلو صفیں سیدھی کرو، جنازہ کے بعد ایک دوسرے گھر کی فریج بھی دیکھنے جانا ہے۔ فون آیا تھا کہ اس کی کولنگ نہیں ہو رہی۔ اللہ اکبر!

#یوسف_سراج

عجیب منظر تھا،
مشہور اور معتبر یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی سکالرز موجود تھے، یہ لاکھوں روپیہ اور زندگی کے اٹھارہ بیس سال تعلیم پر جھونک چکے تھے،ایم اے ایم فل تک تعلیم پانا کوئی عام بات تو ہے نہیں،ہر کوئی کب یہاں تک پہنچ پاتا ہے، لیکن ان کو موبائل ریپرنگ کی کلاس میں دھکیل دیا گیا تھا، وہ سب بیٹھے موبائل کا سرکٹ سیکھ رہے تھے، کچھ بے چارے موبائل کی بیٹری پھٹنے سے ہاتھ بھی کالے کر چکے تھے۔
تعجب کے جواب میں ان کے دور اندیش استاد بتانے لگے۔
تعلیم جتنی بھی ہو نوکری کی گارنٹی تو آج کل دی نہیں جا سکتی،چنانچہ ہنر سکھا رہے ہیں تاکہ بھوکے نہ مریں اور معاشرے پر بوجھ نہ بنیں۔

#یوسف_سراج