سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک نکاح کے پروگرام میں والد اور دلہن کے سائن (دستخط) ہونے کے بعد ایجاب وقبول سے پہلے وہاں پر جھگڑا ہو گیا اور نکاح نہ پڑھا جا سکا ۔ بعد ازاں فریقین ایک اور پروگرام میں شریک ہوئے ،تو والد کی عدم موجودگی میں دلہن کے بھائیوں اور بہنوئی نے نکاح کروا دیا۔ کیا یہ نکاح درست ہے یا نہیں ؟قران وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!ۤ

نکاح فارم پر دستخط کرنا یا کروانا یہ ایجاب و قبول کی علامت نہیں ہے،یہ حکومت کی طرف سے رسمی کاروائی (فارمیلٹی) ہے جس کو ہم نے پورا کرنا ہوتا ہے۔
اصل نکاح ولی اور گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرنا ہے، جبکہ صورت مسؤلہ میں ایجاب و قبول سے پہلے ہی جھگڑا ہوگیا ہے۔ اور باپ کی موجودگی میں جھگڑے کا مطلب واضح ہے کہ وہ راضی نہیں ہے۔
بعد میں بھائیوں اور بہنوئی نے مل کر جو نکاح کروانے کی کوشش کی ہے، وہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ ا س میں باپ ( جو کہ ولی ہے) کی رضامندی شامل نہیں ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

“لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ”.[ سنن ابوداود: 2085]

’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘۔
مزيد فرمایا :

“أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ”.[سنن ابوداود : 2083]

’ جوعورت بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے ۔اس کا نکاح باطل ہے ۔ اس کا نکاح باطل ہے‘۔
لہذا باپ کی رضامندی کے بعد ان کا ایجاب و قبول دوبارہ کروایا جائے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ